یورپ کی سلامتی اور تعاون تنظیم کا اجلاس
4 دسمبر 2009اس اجلاس کے موقع پر مہمان ملک یونان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ Giorgos Papendreou نے دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر کہا کہ یورپی سلامتی کو مضبوط تر بنانے کے لئے ایک نیا ڈھانچہ تیار کیا جائے گا۔
اس اجلاس میں 50 سے زائد یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ ان مذاکرات کا مرکزی موضوع گزشتہ ویک اینڈ پر روس کی طرف سے پیش کردہ یورپی سلامتی کے ایک نئے ڈھانچے کی تجویز تھا۔ اس تجویز میں یورپ اور ایشیاء یعنی یورو۔ایشیائی سلامتی کی بات کی گئی ہے۔ مزید پیسیفک یا بحرالکاہل کے ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تشدد کے استعمال سے پرہیز کریں، یہی ایک طریقہ ہے دیگر ممالک کی سرحدی خود مختاری اور سیاسی آزادی کے احترام کو یقینی بنانے کا۔
کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں OSCE کے ممبر ممالک مشترکہ طور پر جارحیت کے شکار ملک کی مدد کریں گے یہاں تک کہ فوجی امداد بھی پہنچا سکتی ہیں۔ OSCE کے حالیہ اجلاس میں یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، روس، تیونس، مراکش، اردن، اسرائیل، الجیریا، تھائی لینڈ، کوریا، منگولیا، جاپان، وسطی ایشیائی ریاسیتں، سابق سویت یونین کے ممالک اور بلقان کی ریاستوں کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یونانی وزیر اعظم نے کہا کہ تمام دنیا کو اس وقت امن کی سخت ضرورت ہے اور یورپ میں خاص طور سے دیوار برلن گرنے کے 20 سال بعد سلامتی اور ترقی کے گوناگوں چیلنجز پائے جاتے ہیں۔ Papendreou نے عالمی برادری کو درپیش سنگین مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی فہرست گرچہ طویل ہے تاہم چند مسائل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں جیسے کہ توانائی کا بحران، منظم جرائم، دھشت گردی، انتہا پسندی اور سائبر کرائمز وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ ایسے میں تنظیم OSCE دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام دینے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
یونانی وزیر اعظم نے تاہم معاشی بحالی سے دوچار اس دور میں چند مثبت پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا جیسے کہ امریکہ اور روس کے مابین مذاکرات کی بحالی، یہ کورفور عمل کے تحت سامنے آئی تھی۔ یوکرائن میں چھوٹے اسلحوں کو تلف کرنے میں کافی کامیابی دیکھنے میں آئی اور اسی طرح دیگر ممالک میں بھی چھوٹے اسلحے کی تخفیف کی کوششیں شروع ہو ئی ہیں۔ اس اجلاس کے بعد OSCE کی چئیرمن شپ یونان سے قازقستان منتقل ہو جائے گی۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت : عابد حسین