یورپی ایشیائی سربراہ کانفرنس، یوکرائن کا تنازعہ اہم موضوع
16 اکتوبر 2014جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اطالوی شہر میلان میں ہونے والی اس سربراہی کانفرنس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو بھی شرکت کر رہے ہیں، جب کہ یہ دونوں رہنما اس اجلاس کے حاشیے پر جمعے کے روز آپس میں ملاقات کریں گے۔
یہ دو روزہ سربراہی اجلاس آج جمعرات کے روز شروع ہو رہا ہے جب کہ پوٹن اور پوروشینکو کی ملاقات کا اعلان گزشتہ شام کیا گیا۔
اطالوی حکومت کے مطابق یورپ ایشیا سمٹ (ASEM) میں اطالوی وزیر اعظم ماتیو رینزی کے علاوہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور یورپی کونسل اور یورپی کمیشن کے صدور بھی شرکت کریں گے۔
اس اجلاس میں اطالوی وزیرخارجہ فیڈریکا موگرینی بھی شرکت کر رہی ہیں، جو اگلے ماہ یورپی امور خارجہ کی سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے والی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس اجلاس کے حاشیوں میں اطالوی وزیر اعظم رینزی روسی صدر پوٹن سے جمعرات کو اور یوکرائنی صدر پوروشینکو سے جمعے کو ملاقات کریں گے۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے منگل کے روز کہا تھا کہ صدر پوٹن اس اجلاس میں یوکرائن کے بحران کے حوالے سے ماسکو کی پالیسیوں کی وضاحت کریں گے، ’مجھے امید ہے کہ اس سے یورپ کے باشعور لوگوں کو کسی حد تک اسٹریٹیجک نقطہء نظر سمجھے میں مدد ملے گی‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہونے والے فائربندی معاہدے کے باوجود کییف حکومت مسلسل الزام عائد کر رہی ہے کہ روس مشرقی یوکرائن میں تربیت یافتہ جنگجو بھیج رہا ہے۔ یوکرائنی حکومت کا موقف ہے کہ روس مشرقی یوکرائن میں سرگرم روس نواز باغیوں کی فوجی امداد کرتا ہے، تاہم ماسکو حکومت ان الزامات کو مسلسل رد کرتی آئی ہے۔
اس اجلاس میں فریقین گیس کی قیمت کے تنازعے پر بھی بحث کریں گے۔ روس یوکرائن کو گیس کی ترسیل بند کر چکا ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں زیادہ قیمت ادا کی جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں برس مارچ میں روس نے یوکرائنی علاقے کریمیا میں اپنی فوجیں اتار دیں تھیں اور بعد میں وہاں ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد اس علاقے کو روس میں ضم کر لیا گیا تھا۔ دوسری جانب مشرقی یوکرائن میں روسی زبان بولنے والوں کے اکثریتی علاقوں میں بھی علیحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی تھی اور اس مسلح تنازعے میں اب تک تین ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
اسی تناظر میں روس پر امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے سخت پابندیوں کا نفاذ بھی عمل میں آ چکا ہے، جب کہ ماسکو حکومت اسی تناظر میں ایشیا سمیت دیگر خطوں میں اپنے تجارتی ساتھی ڈھونڈنے میں مصروف ہے، تاکہ ان پابندیوں کی وجہ سے متاثر ہوتی روسی معیشت کو کسی حد تک سہارا مل سکے۔