یورپی سردی، 23 ہزار مہاجر بچوں کے لیے خطرہ
21 جنوری 2017اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کی جانب سے جمعے کے روز خبردار کیا گیا ہے کہ یورپ بھر میں درجہء حرارت نقطہء انجماد سے کئی درجے نیچے ہے اور ایسے میں مختلف مہاجر کیمپوں میں موجود بچوں کو سانس اور گلے کی بیماریوں اور انفیکشنز کے خطرات لاحق ہیں۔
یونیسیف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’شدت سرد موسم اور مغربی، مشرقی اور جنوبی یورپ میں طوفانی ہواؤں میں فوری کمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ایسے مین مہاجر اور تارکین وطن بچے سانس اور دیگر بیماریوں کے شکار ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ قریب تئیس ہزار سات سو بچے یونان اور بلقان ریاستوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جن میں شیرخوار بچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں بعض مقامات پر درجہء حرارت منفی 20 تک بھی دیکھا گیا ہے۔
خصوصاﹰ یونان جہاں متعدد جزیروں میں مہاجرین خیمے لگا کر رہ رہے ہیں، اس شدید سردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کئی مقامات پر گزشتہ کئی برسوں میں پہلی مرتبہ شدید ترین برف باری بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
مشرقی اور وسطی یورپ کے لیے یونیسیف کے علاقائی مشیر برائے صحت بازل روڈریک کے مطابق بہت سے شیر خوار اور کم عمر بچے، جن کو سردی سے بچانے والی جسم کی چربی کم ہوتی ہے، خصوصاﹰ سانس کے مسائل اور ممکنہ طور پر وائرل یا بیکٹیریل انفیکشنز بشمول نمونیا اور انفلوئنزا کا شکار ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ کچھ روز میں یورپ بھر میں موسمِ سرما سے جڑی ہلاکتوں کی تعداد 60 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں زیادہ تر بےگھر افراد اور مہاجرین تھے۔
یونان میں اس وقت قریب ساٹھ ہزار مہاجرین موجود ہیں، جن میں زیادہ تر شامی باشندے ہیں۔ یونانی حکام نے بہت سے مہاجرین کو موسم سرما کے مقابلے کی صلاحیت کے حامل ٹینٹوں اور مکانات میں منتقل کیا ہے، تاہم بہت سے ایسے مہاجرین بھی موجود ہیں، جو کھلے آسمان تلے یا شکستہ کیمپوں میں موجود ہیں اور سردی سے شدید متاثر ہیں۔