یورپی مالیاتی بحران اورامیر ملکوں کے مرکزی بینکوں کا اہم فیصلہ
1 دسمبر 2011امیر ملکوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے یورپی قرضوں کے بحران کے بوجھ کو بانٹنے کے اعلان سے دنیا بھر کی مالی منڈیوں میں کاروباری حلقے مطمئن دکھائی دیے ہیں۔ مجموعی طور پر ان مالی منڈیوں میں 400 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ اربوں ڈالر کے کاروباری سودوں کا عکاس ہے۔ جرمنی کے بازار حصص میں یہ اضافہ پانچ فیصد تک ریکارڈ کیا گیا۔
مبصرین کے خیال میں سن 2008 کے بعد مرکزی بینکوں کی جانب سے یہ ایک اور مشترکہ ایکشن ہے۔ اس فیصلے کے بھی دور رس نتائج پیدا ہوں گے اور یورپی اقتصادیات کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے میں کچھ راحت ملے گی۔ آٹھ اکتوبر سن 2008 میں کساد بازاری کے سنگین دَور میں امیر اقوام کے مرکزی بینکوں نے ایک ساتھ شرح سود میں کمی کرنے کا اعلان کیا تھا اور وہ فیصلہ بھی اہم ثابت ہوا تھا۔
یورپی بحران کی دلدل میں یورپی مرکزی بینک اترنے میں ہچکچا رہے ہیں اور ایسے میں دیگر اقوام کے مرکزی بینکوں سے یورپی سینٹرل بینک کو بھی آگے بڑھنے میں آسانی ہو گی۔ دیگر بینکوں میں امریکہ کا فیڈرل ریزرو بینک، برطانیہ کا بینک آف انگلینڈ، کینیڈا، جاپان اور سوئٹزر لینڈ کے سینٹرل بینکس شامل ہیں۔ مشترکہ فیصلے کے تحت اب امریکہ سے باہر بینکوں کو ڈالر تک آسان رسائی دینے کے لیے ان کے درمیان اتفاق ہوا ہے۔
نو دسمبر سے شروع ہونے والی یورپی یونین کی سربراہ اجلاس کے لیے یہ خبر بہتر رہے گی لیکن یورپی اقوام کو قرضوں کے پہاڑ کا سامنا ہے۔ اس باعث یورپی اسٹاک مارکیٹیں یقینی طور پر کسی مثبت فیصلے کی منتظر ہیں جو یورپی اقوام کے قرضے کے بھاری اور وسیع حجم کو کسی طور کم کر سکے۔ مبصرین کے خیال میں مرکزی بینکوں کے اس فیصلے سے بھی یورپی قرضوں کے بحران کی شدت میں کمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
یورپی ملکوں آئر لینڈ، پرتگال، یونان اور اٹلی کی حکومتیں سالانہ بجٹوں کی تیاریوں کے درمیان بڑھتے خسارے کے پہلو کو اس آس پر نظر انداز کرتی رہی ہیں کہ اقتصادی ترقی کی بہار جلد ان کے ملک میں افزائش پائے گی، مگر ایسا نہ ہوا اور اس باعث مالیاتی بحران اب دیگر اقوام میں پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔
یورپی مرکزی بینک کو یہ فکر بھی لاحق ہے کہ یورپی اقتصادیات میں بے تحاشا رقوم کو انڈیلنے سے بہتر نتائج ممکن نہیں کیونکہ اس سے افراط زر کی شرح بڑھنے سے مہنگائی کا بھوت باہر نکل سکتا ہے اور عام لوگ اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ یورپی اقوام ایک مربوط پلان کے تحت ہی جمع رقوم سے بہتر نتائج حاصل کر سکتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں یورپ کی سب سے بڑی اقتصادیات جرمنی کا انحصار ایکسپورٹ پر ہے اور اگر یورو کو زوال آتا ہے تو جرمنی تو شاید کسی طور بچ جائے لیکن دیگر اقوام میں کرنسیوں کی قدر میں انتہائی کمی سے مہنگائی اور افراط زر کا بحران جنم لے سکتا ہے اور اس باعث وہ جرمن اشیاء خریدنے سے بھی قاصر ہوں گی اور یہ جرمنی کے لیے انتہائی مشکلات کا باعث ہو گا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل