1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی نوجوانوں کا جھکاؤ دائیں بازو کی جانب بڑھتا ہوا

Carla Bleiker / امجد علی16 دسمبر 2015

یورپی یونین کے چند ایک رکن ملکوں میں زیادہ سے زیادہ نوجوان سیدھے سادے نعروں سے متاثر ہو کر دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ چند ایک ماہرین ابھی سے اس رجحان کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HO72
Österreich Wahlen Kundgebung FPÖ in Wien
آسٹریا میں اکتوبر میں منعقدہ صوبائی انتخابات سے پہلے فریڈم پارٹی کی انتخابی مہم میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Zak

اس رجحان کی تازہ ترین مثال فرانس کا نیشنل فرنٹ اور آسٹریا کی فریڈم پارٹی ہیں، جنہیں خاص طور پر نوجوان نسل میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ اگرچہ نیشنل فرنٹ کو علاقائی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کسی ایک بھی علاقے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی تاہم اٹھارہ تا چونتیس سال کی عمر کے شہریوں کی تقریباً پینتیس فیصد تعداد نے مارین لے پین کی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت کے حق میں ووٹ دیے۔

آسٹریا کی طرح ہالینڈ، ڈنمارک اور پولینڈ میں بھی دائیں بازو کی جماعتوں کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یورپی یونین کے اندر ایک الگ قومی شناخت کی خواہش ہے۔

سیدھے سادے نعروں کے ذریعے مقبولیت

آسٹریا میں اکتوبر میں منعقدہ صوبائی انتخابات میں فریڈم پارٹی کو چوبیس فیصد ووٹ تیس سال سے کم عمر ووٹروں نے دیے۔ ان ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کم پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے فریڈم پارٹی کے سربراہ ہائنز کرسٹیان شٹراخے اُنہی کی زبان میں باتیں کرتے ہیں۔ شٹراخے کوٹ پتلون نہیں بلکہ جینز پہنتے ہیں اور سیاہ چشمہ لگاتے ہیں۔ دارالحکومت ویانا میں تو انتخابی مہم کے دوران ایک گیت کا بھی سہارا لیا گیا۔ ماہرین کے مطابق فریڈم پارٹی کی جارحانہ انتخابی مہم میں پارٹی منشور کو کم اور سیدھے سیدھے سمجھ میں آنے والے نعروں کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔

Frankreich Erste Runde der Regionalwahlen 2015 Marine Le Pen
مارین لے پین فرانس کی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت نیشنل فرنٹ کی سربراہ ہیںتصویر: Reuters/P. Rossignol

آسٹریا اُن ملکوں میں سے بھی ایک ہے، جہاں پناہ کے متلاشیوں کے سیلاب کے حوالے سے شدید بحث مباحثہ جاری ہے۔ کم پڑھے لکھے نوجوان اس تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں کہ آنے والے پناہ گزینوں کی وجہ سے وہ ملازمتوں کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے۔ فریڈم پارٹی جیسی جماعتوں کے ارکان نوجوانوں کی اسی تشویش کو ہوا دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں یہ نوجوان ’غیر ملکیوں‘ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتےہیں۔

جرمن نوجوانوں کا دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کم

جرمنی میں بھی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد کے بعد سے ’غیر ملکیوں‘ کی جانب معاندانہ طرزِ عمل اپنایا جانے لگا ہے اور پناہ گزینوں کے لیے مختص چند ایک رہائش گاہوں کو آگ بھی لگائی گئی ہے تاہم باقی یورپ کی طرح یہاں کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کی جانب جرمن نوجوانوں کا زیادہ جھکاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آج کل اس جماعت کو جرمنی کے سولہ صوبوں میں سے محض ایک یعنی میکلن برگ ویسٹرن پومرینیا میں ہی نمائندگی حاصل ہے، جہاں اُس نے 2011ء کے صوبائی انتخابات میں چھ فیصد ووٹ لیے تھے۔

Deutschland Brand in geplanter Asylunterkunft in Baden-Württemberg
اگرچہ جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے مختص چند ایک رہائش گاہوں کو آگ بھی لگائی گئی ہے تاہم باقی یورپ کی طرح یہاں کی دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) کی جانب جرمن نوجوانوں کا زیادہ جھکاؤ دیکھنے میں نہیں آیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/SMDG/Friebe

ماہرین کے مطابق جرمنی میں نوجوان اس لیے اتنی بڑی تعداد میں انتہا پسند جماعتوں کی جانب راغب نہیں ہو رہے کیونکہ ریاست کامیابی کے ساتھ اُنہیں بتاتی ہے کہ ہٹلر کے نازی سوشلسٹ دور میں دائیں بازو کی حکومت قائم ہونے کے کتنے ہولناک نتائج برآمد ہوئے تھے۔

جمہوریت اور لبرل معاشرہ خطرے میں

ویانا کے ڈیموکریسی سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار گیرٹراؤڈ ڈینڈورفر کے مطابق جہاں کہیں بھی قوم پرست جماعتوں کو نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، وہاں وہاں کے معاشروں کو مداخلت کرنی چاہیے اور میدان اس طرح کی جماعتوں کے لیے نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ جمہوری جماعتوں اور غیر مطمئن نوجوان رائے دہندگان کے درمیان خلیج وسیع ہونے کے نتیجے میں یورپ کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ ڈینڈورفر کے مطابق موجودہ صورتِ حال کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے ورنہ یورپ میں جمہوریت اور آزاد خیال معاشرے بڑے خطرات کا شکار ہو جائیں گے۔