1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمانی ادارے اور خواتین کو حاصل نمائندگی

21 اپریل 2010

یورپی یونین کے رکن ملکوں کےقومی پارلیمانی اداروں میں خواتین ارکان کی اوسط شرح 24 فیصد بنتی ہے۔ لیکن کسی بھی کوٹےکی عدم موجودگی میں یہ شرح اس لئےکافی کم ہے کہ یورپی یونین کی آبادی میں خواتین کاتناسب 52 فیصد بنتا ہے۔

https://p.dw.com/p/N2Ln
برسلز میں یورپی پارلیمان کے ایک اجلاس کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: AP

اس بات کو اچھی خبر کہا جائے یا بری خبر؟ سن 2009ء میں یورپی پارلیمان کے جو گزشتہ انتخابات ہوئے، ان کے نتیجے میں منتخب ارکان کے طور پر اتنی زیادہ تعداد میں خواتین اس ایوان میں پہنچیں، جتنی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس وقت یورپی پارلیمان کے ارکان میں خواتین کا تناسب 35 فیصد سے کچھ زیادہ بنتا ہے، جو ایک نیا ریکارڈ ہے اور اس حوالے سے یہ ایک اچھی خبر بھی ہے۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ اس یورپی پارلیمانی ادارے کے ارکان میں خواتین کی تعداد صرف قریب ایک تہائی ہے، حالانکہ یورپی یونین کی پوری آبادی میں عورتوں کی شرح 52 فیصد بنتی ہے۔

یورپی خواتین کی نمائندہ تنظیموں کے لابی گروپ EWL کی ایک مرکزی عہدیدار میوریا واسلیادو کہتی ہیں: ’’یہ کافی نہیں ہے۔ یہ تو صرف اوسط ہے۔ مطلب یہ کہ یورپی یونین کے رکن کئی ملک ایسے ہیں، جہاں یہ شرح بہت زیادہ ہے جبکہ کئی ملکوں میں تو یہ عملاً صفر بنتی ہے، جیسے کہ مالٹا میں۔ کئی ریاستوں میں یہ تناسب آج بھی بہت کم ہے۔‘‘

Helsinki Stadtansicht Kalenderblatt
فن لینڈ کا دارالحکومت: ہیلسنکی میں قومی پارلیمان کے ارکان میں خواتین کی شرح یورپ میں سب سے زیادہ ہےتصویر: AP

یہ شکایت کرتے ہوئے میوریا واسلیادو یہ وضاحت بھی کرتی ہیں کہ اس بہت کم اوسط شرح میں اضافہ ہونا چاہیے، کیونکہ یورپی یونین کی مجموعی آبادی کا نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے۔ ’’یورپی یونین کے رکن ملکوں میں خواتین کی آبادی 52 فیصد سے زیادہ ہے، لیکن یورپی پارلیمان میں نمائندگی کی حامل اور وہاں سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک خواتین کا تناسب صرف 35 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ میں ابھی بھی جمہوریت اور مساوات کی کمی ہے۔‘‘

یورپی پارلیمان میں خواتین ارکان کے لئے کوئی کوٹہ مختص نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ یورپی یونین میں شامل ملکوں میں اگر قومی سطح پر پارلیمانی اداروں کی رکن خواتین کی شرح کا موازنہ کیا جائے، تو وہاں بھی بہت زیادہ فرق نظر آتا ہے۔ سب سے بڑی خلیج شمالی اور جنوبی یورپی ملکوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔

شمالی یورپی ملک فن لینڈ وہ ریاست ہے، جہاں ملکی پارلیمان میں عورتوں کی شرح پورے یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ شرح 61 فیصد بنتی ہے۔ فن لینڈ کے بعد سویڈن کا نام آتا ہے، جہاں سٹاک ہولم کی موجودہ پارلیمان میں عورتوں کا تناسب 55 فیصد ہے۔ برلن کی وفاقی جرمن پارلیمان میں خواتین کی شرح 37 فیصد ہے، جو یورپی اوسط سے تھوڑی سی زیادہ ہے۔ وہ یورپی ملک، جہاں خواتین کو نہ ہونے کے برابر یا انتہائی کم پارلیمانی نمائندگی حاصل ہے، ان میں مالٹا کے علاوہ قبرص، پولینڈ، اٹلی، چیک جمہوریہ اور پرتگال جیسی ریاستوں کے نام قابل ذکر ہیں۔ فرانس میں یورپی پارلیمان کے الیکشن کے لئے مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی فہرست میں لازمی ہے کہ ہر دوسرا نام کسی خاتون سیاستدان کا ہو۔ سویڈن میں اسی اصول پر سیاسی جماعتیں رضاکارانہ طور پر عمل کرتی ہیں۔

Maria Damanki EU Kommissarin für Fischerei
ماہی گیری سے متعلقہ امور کی نگران یونان سے تعلق رکھنے والی یورپی خاتون کمشنر ماریا دامانکیتصویر: EU Kommission

میوریا واسلیادو کا شمار خواتین کے حقوق کے لئے لابی کرنے والی اہم ترین یورپی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لئے پارلیمانی کوٹہ مخصوص کرنا کوئی بہترین یا حتمی حل نہیں ہے، لیکن عبوری طور پر یہ حل کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

’’ہمیں کوٹے کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یونین کی رکن مختلف ریاستوں میں قانون اور جمہوریت قابل عمل نہ ہوں، چاہے ایسا تاریخ اور روایت کی بناء پر ہو یا پھر سماجی عوامل کی وجہ سے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے، جس کے تحت خواتین کو ایسے جملہ عوامل سے بالاتر ہو کر برابر کے مواقع حاصل ہوں۔ پھر یہ فیصلہ خواتین خود کر سکتی ہیں کہ وہ اپنے لئے ایسے مواقع کا کیا کرنا چاہتی ہیں۔‘‘

کئی یورپی ملکوں سے خواتین اس لئے بھی بہت کم تعداد میں منتخب ہو کر یورپی پارلیمان میں پہنچتی ہیں کہ خود ان ملکوں میں ان کی سیاسی شعبے میں موجودگی پہلے ہی انتہائی کم ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یورپی پارلیمان میں اگر خواتین کا موجودہ تناسب قریب 35 فیصد بنتا ہے تو یونین کے رکن ملکوں کے قومی قانون ساز اداروں میں عورتوں کی تعداد یورپی سطح پر اپنی اوسط میں صرف 24 فیصد یا قریب ایک چوتھائی بنتی ہے۔

مشرقی یورپی ملکوں میں تو ایسی خواتین کی تعداد خاص طور پر کم ہے، جو اپنے اپنے ملکوں کے قومی پارلیمانی اداروں تک پہنچنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ اس حوالے سے کئی مغربی یورپی ملکوں میں بھی آپس میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سویڈن میں اگر قومی پارلیمان کے ارکان میں خواتین کا تناسب نصف سے زیادہ بنتا ہے، تو جرمنی اور آسٹریا جیسی ریاستوں میں یہ شرح محض ایک تہائی کے قریب ہے۔

Deutschland Bundestag Bonn Jubiläumssitzung Erster Bundestag Flash-Galerie
برلن کی وفاقی جرمن پارلیمان میں خواتین ارکان کی شرح 37 فیصد ہےتصویر: AP

لیکن یورپی پارلیمان میں خواتین اور مرد ارکان کے مابین فرق صرف قومی بنیادوں پر ہی نہیں پایا جاتا بلکہ یہی تفریق سیاسی جماعتوں کی سطح پر بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ یورپی خواتین کے لابی گروپ European Women's Lobby کی میوریا واسلیادو کہتی ہیں: ’’کسی بھی سیاسی جماعت میں مردوں اور خواتین کا تناسب درست نہیں ہے۔ پھر بھی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے ہاں جنس کی بنیاد پر یہ تقسیم قدرے بہتر ہے۔ پھر یہ بات بھی اہم ہوتی ہے کہ کسی جماعت کی قیادت کس کے پاس ہے۔‘‘

یورپی پارلیمان میں گرین پارٹی کے حزب کی قیادت دو رکنی ہے، جس میں ایک مرد ہوتا ہے اور ایک عورت۔ مجموعی طور پر گرین پارٹی کے ارکان میں خواتین کا تناسب 47 فیصد کے قریب ہے۔ پھر طویل وقفے کے بعد ترقی پسندوں، سوشل ڈیموکریٹس، بائیں بازو کی جماعتوں اور آخر میں قدامت پسند جماعتوں کے پارلیمانی دھڑے کا نام آتا ہے۔ یورپی پارلیمان میں ایسا کب تک ہو سکے گا کہ خواتین کو اتنی ہی نمائندگی حاصل ہو، جتنی ان کی یونین کی مجموعی آبادی میں شرح بنتی ہے، اس بارے میں EWL کی میوریا واسلیادو کہتی ہیں: ’’چند مطالعاتی جائزوں میں اس کے لئے 80 سال کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ اس میں 180 سال لگیں گے۔ میری بیٹی کی عمر تین سال ہے۔ میں اتنا طویل انتظار نہیں کرنا چاہتی۔‘‘

یورپی پارلیمان میں جو کچھ شاید اگلے چند برسوں میں عین ممکن ہے، وہ یہ کہ کوئی خاتون دوبارہ اس پارلیمان کی اسپیکر بن جائے۔ جب سے یورپی پارلیمان کے لئے براہ راست الیکشن کا نظام شروع ہوا ہے، تب سے آج تک صرف دو مرتبہ کسی خاتون کو اس پارلیمان کی اسپیکر منتخب کیا گیا ہے جبکہ اسی عہدے پر اب تک گیارہ مرتبہ مردوں کو منتخب کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں