یورپی پالیسی سازوں کے مسائل، بڑھاپا، شرح پیدائش اور ترک وطن
1 اگست 2013یہ مسائل طویل المدتی بنیادوں پر نہ صرف اقتصادی ترقی کو متاثر کر سکتے ہیں بلکہ یورپی قوموں کو ایک مشکل انتخاب پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔ اس مشکل انتخاب میں یورپی ملکوں کو پینشن کی رقموں اور سماجی امداد کے شعبے میں کمی کرنا پڑ سکتی ہے یا پھر انہیں برقرار رکھنے کے لیے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ لازمی ہو جائے گا۔
کچھ ملکوں کو مستقبل کے ان مسائل کا ابتدائی طور پر ابھی سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ براعظم یورپ میں وہ کارکن اب ریٹائر ہو رہے ہیں جو عشروں پہلے بچوں کی شرحء پیدائش میں بہت زیادہ اضافے کے دور میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کئی سالوں سے جاری کم تر شرحء پیدائش کے باعث نوجوان نسل کا تناسب کم ہو رہا ہے اور یورپی معاشروں میں روزگار کی منڈی سے رخصت ہو جانے والے بزرگ شہریوں کا تناسب مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ فرانس میں ٹریڈ یونینوں کی طرف سے ایسے مظاہروں کے پروگرام بنائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد کارکنوں کی طرف سے پینشن کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں میں اضافے کا حکومتی منصوبہ ہے۔
پیرس حکومت ایسا اس لیے کرنا چاہتی ہے کہ پینشن کے لیے دستیاب فنڈز میں 14 بلین یورو کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ اسپین کو یورپی کمیشن کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ میڈرڈ حکومت ملک میں اس لیے اصلاحات متعارف کرانا چاہتی ہے کہ پینشنوں کی ادائیگی کے لیے دستیاب رقوم کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
گزشتہ برس اس مد میں فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہسپانوی حکومت کو سوشل سکیورٹی کے شعبے میں محفوظ مالی وسائل کو جزوی طور پر استعمال کرنا پڑ گیا تھا۔ اسپین کے شہر بارسلونا کے ماہر اقتصادیات ایڈورڈ ہیُو کہتے ہیں، ’’یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ کچھ نہ کچھ لازمی طور پر کرنا ہو گا۔ اب سوال صرف یہ ہے کہ یورپی ملک کس رفتار سے آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔‘‘ اسپین میں پینشن کے نظام پر اس وقت اس لیے بھی بہت دباؤ ہے کہ کساد بازاری کے آغاز سے اب تک وہاں تین ملین سے زائد کارکن اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔
بہت سے یورپی ملکوں میں ترک وطن کا رجحان بھی ایک بڑا مسئلہ ثابت ہو رہا ہے۔ جن ملکوں میں بہت زیادہ غیر ملکی کارکن اقتصادی ترقی کے دور میں وہاں گئے تھے، وہ اب وہاں سے واپس جا رہے ہیں۔ اسپین سے 2010ء کے آغاز سے اب تک پانچ لاکھ سے زائد غیر ملکی کارکن رخصت ہو چکے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی باشندوں کی نوجوان نسل کا ایک حصہ بھی ملازمتوں کی تلاش میں بیرون ملک منتقل ہونے لگا ہے۔ اسپین، پرتگال اور آئرلینڈ سن 2010 سے سن 2013 کی پہلی سہ ماہی تک کے درمیانی عرصے میں اپنے کام کرنے کی عمر کے بالغ شہریوں میں سے دو فیصد کارکنوں سے محروم ہو چکے ہیں۔
متعدد یورپی ملکوں کو تو یہ بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ اپنے ہاں بچوں کی تعلیم پر وسائل وہ خود خرچ کرتے ہیں لیکن بعد میں ایسے بہت سے نوجوان ترک وطن کر کے دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں اور اپنے ٹیکس بھی وہیں ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بلغاریہ کی آبادی 1985ء میں نو ملین کے قریب تھی۔ لیکن اب یہ کم ہو کر 7.3 ملین رہ گئی ہے۔ گزشتہ صرف ایک عشرے میں بلغاریہ کی آبادی میں پانچ لاکھ 82 ہزار کی کمی ہوئی ہے۔