ڈیزائنرز برقعے اورعبایا: مذہبی رواداری یا کاروبار
30 اپریل 2016فیشن ویب سائٹ Style.com نے رواں سال یعنی 2016 ء میں اپنی نئی کولیکشن کو متعارف کرایا اور خاص طور سے اس ویب سائیٹ کے ذریعے عرب ممالک میں خواتین کے نت نئے اور نام نہاد اسلامی ملبوسات کی تشہیر کا کام نہایت کامیابی سے کیا جا رہا ہے۔ اس پیشرفت پر فرانس میں ایک گرما گرم اور متنازعہ بحث چھڑ گئی ہے۔
سب سے زیادہ تنقید کی زد میں اطالوی فیشن ڈیزائنر ڈولچے گبانا آ رہا ہے جس نے اپنے نئی کولیکشن میں نہایت فیش ایبل ہیڈ اسکارفس اور عبایا ڈیزائن کیے ہیں، جو خاص طور سے عرب ممالک اور دیگر مسلم معاشروں میں بھی تیزی سے مقبول ہوئے ہیں۔ اس طرح کے فیشن ملبوسات کی مقبولیت پر یورپی ملک فرانس میں ایک بڑی متنازعہ بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔
فیشن اور عوامی رائے
ڈولچے گبانا کی طرح H&M اور Uniqlo جیسے متعدد دیگر چینی اسٹورز بھی مغربی برانڈز اور ڈیزائنرز کے ملبوسات کی کولیکشن، خاص طور سے مشرق وسطیٰ کی مسلمان عورتوں کے لیے مارکیٹ میں لا رہے ہیں۔
فرانس کی خواتین کے حقوق کی وزیر لوراں روزینول نے اس منافع بخش مارکیٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس رویے کو نہایت غیر ذمہ دارانہ قرار دیا تھا۔ فرانسیسی وزیر کے بیان کے بعد سے فرانس میں اس قسم کے فیشن ملبوسات کو ایک خاص تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی مغربی معاشروں میں عوامی رائے سازی میں اس کے کردار پر سوالات اُٹھنا شروع ہو چکے ہیں۔
اُدھر نیو یارک ٹائمز کی فیشن ناقد نے بھی یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کیا مسلمان خواتین کے لیے جدید، فیشن ایبل مگر اسلامی ضابطہ لباس کے تحت مارکیٹ میں لائے جانے والے فیشن ملبوسات مغربی معاشروں میں رواداری اور افہام و تفہیم کے فروغ اور مختلف عقائد ثقافتوں کی پہچان کو تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں یا اس فیشن انڈسٹری کی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ آزادی کے تصور کو مخصوص جمالیاتی اظہار کے ذریعے مختلف معاشروں تک پہنچائے؟
فرانسیسی وزیر کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’فیشن برانڈز یا جدید ملبوسات سازی کی صنعت خواتین کے اسلامی لباس بنانے میں سرمایہ کاری کر کے مسلم خواتین کے جسموں کو قید کرنے کے تصور کی حمایت کر رہی ہے؟‘‘
اس تمام بحث نے فرانس میں مسلم خواتین کے برقعے پر لگی پابندی کے بارے میں متنازعہ بحث کو ہوا دی ہے۔ فرانس کی حقوق نسواں کی معروف سرگرم اور مفکر الیزابتھ باڈنٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مسلم خواتین کے لیے فیشن ملبوسات بنانے والے برانڈز کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
کھیل سارا پیسوں کا ہے
جرمن میڈیا میں اس موضوع پر اب تک کوئی خاص بحث دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ کبھی کبھار اس موضوع پر اگر کوئی رپورٹ شائع ہوتی بھی تو اُس کا تعلق فرانس میں اس موضوع پر ہونے والی بحث و تکرار سے ہوتا ہے۔
جرمن شہر کولون میں قائم جرمن فیشن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر گیرڈ میولر تھومکنس کے بقول، ’’ڈیزائنرز اور فیشن انڈسٹری صارفین کو بلند معیار اور اُن کی توقعات کے مطابق مصنوعات مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ساری بحث منافعے کے ارد گرد گھومتی ہے۔ سارا معاملہ پیسوں کا ہے۔‘‘