یورپی کمپنیوں کو امریکی پابندیوں سے کیسے بچایا جائے؟
18 مئی 2018یورپی رہنماؤں کے مطابق امریکی کی دستبرداری کے باوجود ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پائی جانے والی جوہری ڈیل پر عمل درآمد جاری رہے گا۔ ایران میں کام کرنے والی یورپی کمپنیوں پر ممکنہ امریکی پابندیوں کے تناظر میں یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امریکا کے ہوتے ہوئے بھلا کسی دشمن کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس تمام بحث سے جڑے تین سوال اور ان کے جوابات۔
’ایسے دوستوں کے ہوتے ہوئے دشمن کسے چاہیے‘
کیا جوہری ڈیل بچ سکتی ہے؟ ایرانی وزیرخارجہ ماسکو میں
امریکی دستبرداری گلوبل آرڈر کے لیے دھچکا ہے، جرمن چانسلر
سوال: یورپی رہنماؤں نے ایران کے ساتھ عالمی ڈیل پر کاربند رہنے کا عزم تو ظاہر کیا ہے، کیا یہ ممکن بھی ہو سکے گا؟
جواب: یورپی رہنماؤں کے لیے یہ ایک مشکل وقت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی اس ڈیل سے امریکا کی دستبرداری کے بعد یونین نے ایران کو بھی راضی رکھنا ہے اور دوسری طرف واشنگٹن حکومت کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ سے بھی بچنا ہے۔
اس کی ایک مثال جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا وہ اعتراف بھی ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی یہ عالمی ڈیل اگرچہ پرفیکٹ نہیں ہے لیکن یورپی یونین اس پر عمل پیرا رہے گی۔ البتہ میرکل نے کہا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
دوسری طرف فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ذرا سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جو فیصلے چاہے کرے، لیکن یورپ اس ڈیل کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔
اسی طرح برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے نے بھی کہا ہے کہ لندن حکومت اس ڈیل کو بچانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ تو فی الحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ یورپ اپنے عزم پر برقرار ہے اور وہ ایرانی جوہری ڈیل پر کاربند رہے گا۔
سوال: یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کیوں کہا کہ امریکا ’قابل اعتماد ساتھی‘ نہیں ہے؟
جواب: امریکا نے اس ڈیل سے دستبردار ہوتے ہی ایران پر پابندیاں بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوں یورپی کمپنیوں کے ایران میں کام کرنے کی وجہ سے واشنگٹن انہیں بھی پابندیوں کی زد میں لا سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹسک کا یہ بیان اسی تناظر میں ہے کیونکہ عالمی جوہری ڈیل پر کاربند رہتے ہوئے یورپی کمپنیاں تو ایران میں کام کریں گی اور اگر امریکا ان پر پابندیاں لگاتا ہے تو یہ واقعی قابل اعتماد پارٹنر نہ ہونے کے مترادف ہی ہو گا۔
دوسری صورت میں اگر یہ یورپی کمپنیاں ایران میں اپنی سرگرمیاں ختم کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یورپ امریکا کے دباؤ میں آ گیا ہے اور یوں یہ ڈیل خطرے میں پڑ جائے گی۔
ٹسک نے اس تناظر میں یہ بھی کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری ڈیل سے نکلنے اور امریکا میں یورپی برمدات پر مزید محصولات نافذ کرنے کی پالیسی کے خلاف ایک مشترکہ یورپی فرنٹ بنایا جانا چاہیے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ اس تمام صورتحال میں امریکا اور یورپ کے مابین تناؤ کی کیفیت تو پیدا ہو چکی ہے۔
سوال: ان پابندیوں سے بچنے کے لیے یورپی یونین نے کیا حکمت عملی اپنائی ہے؟
جواب: یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے کہا ہے کہ انیس سو چھیانوے میں بنائے گئے اُس قانون کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے، جس کی بدولت ایران میں کام کرنے والی یورپی کمپنیاں امریکی پابندیوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں رہیں گی۔
ینکر نے واضح کیا کہ یورپی کمیشن کا فرض بنتا ہے کہ وہ یورپی کمپنیوں کا تحفظ یقینی بنائے، اسی لیے اس قانون کو ری ایکٹیویٹ کیا جا رہا ہے۔ جمعے کے دن سے اس قانون پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
ادھر یورپی انوسٹمنٹ بینک کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ایران میں فعال یورپی کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں مدد بھی فراہم کرے۔ ینکر کے بقول یورپی کمیشن مستقبل میں بھی ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یورپی رہنما اس دوران ایران کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اس کے میزائل پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے خدشات کو ختم کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔