یورپی یونین اور یورو: سال 2010 کا میزانیہ
30 دسمبر 2010یورپی باشندوں اور سیاستدانوں میں سے سال کے شروع میں شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوکہ یہ سال اس طرح کے بحرانی حالات سے بھرپور رہے گا۔ لیکن یہ بات بہت جلد ہی واضح ہو گئی تھی کہ یورپی یونین اور یورپی کرنسی اتحاد میں شامل ریاست یونان شاید مالی ادائیگیوں کے قابل نہیں رہے گی۔
اس پس منظر میں یورپی یونین کے مالیاتی امور کے کمشنر Olli Rehn نے فروری ہی میں عوامی اور سیاسی سطح پر پائی جانے والی اس تشویش کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: ’’میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں اگر ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو ہمارے پاس اتنے وسائل اور ایسے راستے بھی ہوں گے کہ ہم یورو زون کے مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکیں۔‘‘
اسی دوران یہ بات بھی واضح ہو چکی تھی کہ کسی بھی ایک رکن ملک کی صورتحال یورپی مالیاتی یونین کو متاثر کر سکتی ہے۔ اَولی ریہن کے اعلانات سے ہر کوئی مطمئن نہیں تھا۔ اپریل کے آخر میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی اس امکان کو رد کر دیا تھا کہ یورو زون کی کسی ریاست کی مدد کے لئے ہنگامی طور پر کوئی نیا اور بڑا امدادی پروگرام شروع کیا جا سکتا ہے۔
تب ویسٹر ویلے نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’جو کوئی بھی ممکنہ امدادی رقوم پہلے ہی سے ہاتھوں میں لے لےگا، وہ یہی دیکھے گا کہ یونان میں حکومت بجٹ کے حوالے سے بہتری کے لئے اپنی کوششیں پوری ہمت اور توانائی سے نہیں کر سکے گی۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ مختلف ملکوں کی انفرادی غلطیوں کی قیمت سارے یورپی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنا پڑے۔‘‘
پھر چند ہی روز بعد مئی کے شروع میں یونان کے لئے ہنگامی امدادی پیکیج تیار بھی ہو گیا۔ سربراہان مملکت کی سطح کی ایک کانفرنس میں ایتھنز کے لئے منظور کئے جانے والے اس مالیاتی امدادی پروگرام کے سلسلے میں یونانی حکومت کو اس بات کا پابند بھی بنایا گیا کہ اسے ہرحال میں ایک وسیع تر بچتی پروگرام پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔
وفاقی جرمن وزیر خزانہ وولفگانگ شوئبلے کے بقول یہ ایک درست فیصلہ تھا لیکن ان کے اس بیان نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس بارے میں وفاقی جرمن حکومت تقسیمِ رائے کا شکار تھی۔ شوئبلے کے بقول، ’’یورو زون کے استحکام کا ایک اکائی کے طور پر تمام یورپی ملکوں اور باشندوں کو دفاع کرنا ہو گا۔ یہی ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ جتنا بہتر ہم اپنا یہ فرض پوراکریں گے، اتنا ہی یہ یورپ کے لئے اچھا ہو گا اور ساتھ ہی تمام جرمنوں کے لئے بھی۔‘‘
دریں اثناء بہت سےیورپی حلقے یہ تنبیہ بھی کر چکے تھے کہ یوروکا مالیاتی بحران ممکنہ طور پر صرف یونان پر ہی ختم نہیں ہوگا۔ اس بارے میں لکسمبرگ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے ایک رکن فرانک اَینگل نے کہا تھا: ’’آج جو کچھ یونان میں ہو رہا ہے، کل وہ پرتگال اور اسپین میں بھی دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ اگر اسپین کے ساتھ بھی ایسا ہوا، تو پورے یورپ کے ساتھ ایسا ہو گا کیونکہ پورا یورپ مل کر بھی اسپین کودیوالیہ پن سے بچانے کے لئے مالی وسائل مہیا نہیں کر سکتا۔‘‘
ان حالات میں برسلز میں کافی حد تک تشویش پائی جانے لگی تھی۔ یونان کے لئے مالی امدادی پیکیج کی منظوری کے صرف قریب ایک ہفتے بعد یورو ریاستوں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF کے ساتھ مل کر ایک ایسا مالیاتی منصوبہ تیار کیا، جس کے تحت اس طرح کی ہنگامی مالی امداد کے لئے مجموعی طور پر 750 بلین یورو مختص کئے گئے۔ ساتھ ہی تمام رکن ریاستوں کو پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے اپنے قومی بجٹ میں خسارے کو کم کریں۔
نومبر میں آئرلینڈ وہ پہلا ملک ثابت ہوا، جسے یورو زون کے 750 بلین یورو مالیت کے ہنگامی امدادی فنڈ سے اربوں یورو مہیا کئے گئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا کہ اگر اسپین اور پرتگال کو بھی ہنگامی بنیادوں پر امدادی رقوم کی ضرورت پڑی، تو موجودہ Umbrella فنڈ کے تحت مختص کردہ وسائل ختم ہو جائیں گے۔
دسمبر کے وسط میں یورپی یونین کی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکاء نے مطالبات کے باوجود یہ تجویز مسترد کر دی کہ اس فنڈ کے تحت مختص کردہ مالی وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ ساتھ ہی اس یورپی سربراہی کانفرنس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ یورو زون کی ریاستیں آئندہ اپنی اپنی اقتصادی سیاست کے حوالے سے آپس میں زیادہ بہتر تعاون کرتے ہوئے اسے زیادہ سے زیادہ مربوط بنائیں گی۔
اب جبکہ سال 2010 ختم ہونے کو ہے، یورپی کاروباری منڈیاں ان مالیاتی فیصلوں کی وجہ سے قدرے پر سکون ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ آنے والا سال 2011 سال رواں کے مقابلے میں بہتر ہو گا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق