’یورپی یونین براستہ ترکی‘، مہاجرین کا اسمگلروں پر اعتماد
18 اگست 2015بائیس سالہ شامی مہاجر خاتون دُعا اپنے دو بچوں کے ساتھ بودرم سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیرے کوس میں داخل ہونے کے لیے پَر تُول رہی ہے۔ یورپی یونین میں داخل ہونے کے لیے اس نے انسانوں کے اسمگلروں کو تین ہزار یورو دیے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ یہ رقم اس کے شوہر نے ادا کی ہے۔
دعا نے بتایا، ’’میرا شوہر اس شخص (اسمگلر) کے ساتھ رابطے میں ہے۔ ہم نے فی کس ایک ہزار ادا کیا ہے۔ شاید ہم یورپی یونین میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘‘ شہر کی مونسپلٹی کے ایک گارڈن میں نئے سفر کی منتظر دعا نے مزید کہا، ’’ ہم خوفزدہ ہیں کہ اگر اسمگلر رقوم لے کر فرار ہو گئے تو ہم کیا کریں گے؟ ہم نہیں جانتے کہ کیا ہونے والا ہے؟ ہمیں کہا گیا ہے کہ رات گیارہ بجے ہمیں روانہ ہونا ہے۔‘‘
ترکی اور یونانی جزیرے کوس کو ملانے والا سمندری راستہ طویل نہیں ہے۔ بودرم اور کوس میں فعال انسانوں کے اسمگلر رابطہ کاری میں رہتے ہیں۔ یہ اسمگلر افراط پذیر کشتیاں (جن میں ہوا بھر کر کشتی بنا لیا جاتا ہے) ترک شہر استنبول اور ازمیر سے خریدتے ہیں۔ انہی کشتیوں کے ذریعے ہی لوگوں کو ترکی سے یونان اسمگل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بودرم میں موجود سولہ سالہ شامی مہاجر حسن نے ترک زبان مہاجرین کے ایک کیمپ میں سیکھی۔ اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ یورپ پہنچنے کے خواہمشند انسانی اسمگلرز سے رابطے کرتے ہیں اور پھر ڈیل طے پا جانے پر انہیں بودرم پہنچایا جاتا ہے۔ حسن بھی غیرقانونی طور پر یورپی یونین جانا چاہتا ہے۔ اس نے مزید کہا، ’’میں ایک ہفتے سے یہاں موجود ہوں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ میں یہاں انتظار کروں۔ میں نہیں جانتا کہ ہم کب سفر شروع کریں گے۔‘‘
بودرم کے ساحلی علاقوں میں ترک سکیورٹی گارڈز کی سخت نگرانی ہے۔ اس لیے یہ ضمانت نہیں کہ یورپ پہنچنے کے خواہشمند افراد اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اگر وہ ناکام ہوئے تو ان کی رقوم واپس کر دی جائیں گی۔
ترک حکومت کے ایک اہلکار نے اے اپف پی کو بتایا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں ایک ایرانی شہری کو گرفتار کیا ہے، جو اس کاروبار میں ملوث تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران، پاکستان، شام، ترکی اور حتیٰ کہ آئیوری کوسٹ سے بھی لوگ یورپ جانے کے لیے یہاں وہاں ہیں۔ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر اس ایرانی پر جرم ثابت ہو گیا تو اسے آٹھ سال کی قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔
انقرہ میں قائم ادارے IGAM کے صدر متین کورابیتر کے بقول شام کے تنازعے کے چوتھے سال میں داخل ہونے کے بعد 1.8 ملین مہاجرین میں سے زیادہ تر اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ واپس اپنے ملک کبھی نہیں جا سکیں گے۔ اس لیے وہ اچھے مستقبل کے لیے محفوظ مقامات کا رخ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مقصد کے لیے یہ مہاجرین یورپ کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہیں۔
متین نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ اسمگلر اس صورتحال میں ان مہاجرین کو یورپ پہنچانے کی لالچ دیتے ہیں اور رقوم بٹورتے ہیں، ’’یہ اسمگلر مہاجرین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ یورپ چلے جائیں۔ یہ مہاجرین سے وعدے کرتے ہیں کہ وہاں انہیں بہتر زندگی میسر آ سکے گی۔‘‘
نیوز ایجسی اے ایف پی نے ترک حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ساحلی محافظ بحیرہ ایجبئن میں گزشتہ ماہ ہی ایسے اٹھارہ ہزار تین سو مہاجرین کو بچا چکے ہیں، جو سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ صرف گزشتہ ہفتے ہی پانچ ہزار 275 ایسے افراد کو پکڑا گیا ہے، جو غیر قانونی طور پر یورپ جانا چاہتے تھے۔