یورپی یونین نے برطانیہ کو بریگزٹ کے لیے مزید سات ماہ دے دیے
11 اپریل 2019لندن حکومت اور یورپی یونین کی قیادت کے مابین اس بارے میں اتفاق رائے جمعرات گیارہ اپریل کو علی الصبح برسلز میں ہوا، جہاں یونین کے رکن 28 ممالک کی بریگزٹ سے متعلق ایک ہنگامی سربراہی کانفرنس کل بدھ کو شروع ہوئی تھی اور آج جمعرات کو صبح سویرے تک جاری رہی۔
برطانیہ کو اپنے ہاں تین سال قبل ہونے والے ایک عوامی ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں پہلے اس سال 29 مارچ تک یورپی یونین سے نکلنا تھا۔ اس بارے میں وزیر اعظم مے اور یونین کے رہنماؤں کے مابین متعدد مذاکراتی ادوار میں ایک بریگزٹ ڈیل طے بھی پا گئی تھی، لیکن اسے لندن میں ملکی پارلیمان کے ارکان نے تین مختلف اوقات پر ہونے والی رائے شماری میں تین بار مسترد کر دیا تھا۔
اس کے بعد مے نے یونین سے 29 مارچ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کر دی تھی، جس پر لندن کو برسلز کی طرف سے پہلے صرف مزید دو ہفتوں کا اضافی وقت دیا گیا تھا، جو کل جمعہ 12 اپریل کو ختم ہو رہا تھا۔ لیکن برطانوی پارلیمان کی طرف سے ڈیل منظور نہ ہونے کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ کل بارہ اپریل کو برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر ہی یونین سے نکل جاتا، جو لندن اور یورپی یونین دونوں کے لیے ہی سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک تباہ کن پیش رفت ہوتی۔ یورپی یونین نے لیکن خود کو اس کے لیے پوری طرح تیار بھی کر لیا تھا۔
مے اپنی بات منوا نہ سکیں
اس پس منظر میں وزیر اعظم مے نے ایک بار پھر یورپی یونین سے درخواست کر دی تھی کہ بریگزٹ کی ڈیڈ لائن میں ایک بار پھر توسیع کر دی جائے، جو لندن کی خواہش کے مطابق 22 مئی ہونا چاہیے تھی۔ یہ بات لیکن یونین کو منظور نہیں تھی کیونکہ مئی کے اواخر میں یورپی پارلیمانی الیکشن بھی ہونا ہیں اور برسلز نہیں چاہتا تھا کہ بریگزٹ کے مسئلے کی وجہ سے یونین کا پورے کا پورا یورپی پارلیمانی انتخابی عمل متاثر ہو۔
اسی لیے یورپی یونین کی سیاسی قیادت اور یورپی کمیشن کے سربراہ کا اصرار تھا کہ اب اگر بریگزٹ کی مدت میں توسیع ہوئی تو وہ طویل توسیع ہو گی۔ یورپی کمیشن کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے تو ایک سال تک کی توسیع کی تجویز دی تھی۔ اس بارے میں برسلز میں یونین کی ہنگامی سربراہی کانفرنس میں اب یہ طے پایا ہے کہ برطانیہ کو بریگزٹ کے لیے اکتوبر کے آخر تک کا وقت دے دیا جائے۔ یہ تجویز وزیر اعظم مے نے قبول بھی کر لی ہے۔
اکتوبر سے پہلے مشروط اخراج بھی ممکن
اس عرصے کے دوران لندن کی کوشش ہو گی کہ وہ کسی باقاعدہ معاہدے کے تحت یورپی یونین سے نکلے۔ اگر یہ کوشش اکتوبر سے پہلے ہی کامیاب ہو گئی، تو برطانیہ 31 اکتوبر سے پہلے بھی یونین سے نکل سکے گا۔ اس اتفاق رائے کے بعد ٹریزا مے نے برسلز میں یہ امید بھی ظاہر کی کہ ان کی رائے میں برطانیہ اس سال جون کے آخر تک بھی یونین سے نکل سکتا ہے۔
برسلز میں بریگزٹ کی بارہ اپریل کی گزشتہ ڈیڈ لائن کے ختم ہونے سے صرف ایک دن پہلے طے پانے والے اس نئے اتفاق رائے کا ایک لازمی نتیجہ اب یہ بھی ہو گا کہ برطانیہ اور برطانوی عوام کو مئی کے اواخر میں ہونے والے یورپی پارلیمانی انتخابات میں بھی حصہ لینا پڑے گا۔
م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی