یورپی یونین کی بیلاروس کو مشروط امداد کی پیش کش
1 اکتوبر 2011یورپی یونین کی جانب سے بیلاروس کے لیے یہ مشروط پیش کش پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں دو روزہ سربراہی اجلاس میں سامنے آئی، جس میں یورپی یونین نے بیلا روس سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنےکا مطالبہ کیا۔
یورپی رہنماؤں نے کہا کہ بیلا روس میں شہری حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ پر دباؤ بند ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے ساتھ فوری طور پر بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا: ’’بیلاروس کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے۔ بیلاروس کو جدید بنانے کے لیے مدد کے واضح مواقع ہیں، لیکن یہ پیش کش صرف جمہوری ریاست کو ہی کی جا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’آج بیلاروس کے اقتصادی حالات پر غور کریں، ایسا لگتا ہے کہ بین الاقوامی مدد ناگزیر ہے۔‘‘
وارسا کے اس دو روزہ اجلاس کے ایجنڈے پر بیلاروس سرفہرست رہا۔ اس اجلاس کا مقصد یورپی یونین کے ستائیس رکن ممالک اور چھ سابق سوویت ریاستوں کے مابین قریبی تعلقات کا فروغ ہے۔ ان چھ ریاستوں میں یوکرائن، بیلاروس، مالدووا، جارجیا، آذربائیجان اور آرمینیا شامل ہیں۔
تاہم بیلاروس نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ منسک حکام نے امتیازی سلوک کی شکایت کرتے ہوئے مذاکرات میں شرکت سے معذرت کی۔
یورپی سربراہان نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو کو 2010ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات، حزب اختلاف کی تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے اور سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔
اسی وجہ سے یورپی یونین اور امریکہ نے اس سابق سوویت ریاست پر اقتصادی اور سفری پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق