’یوم السبت‘ پر کاروبار، اسرائیلی پارلیمان کا نیا قانون
9 جنوری 2018اسرائیلی پارلیمان میں محض ایک ووٹ کی سبقت کے ساتھ منظور کیے جانے والے اس قانون کے تحت ملکی وزیر داخلہ کو اُن میونسپل قوانین کو منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے جن کے تحت لوکل کونسلیں اپنے علاقوں میں ہفتے کے روز دکانوں اور ریستورانوں کو کھولنے کی اجازت دے سکتی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمان نے اس قانونی بِل کو 57 کے مقابلے میں 58 ووٹوں سے منظور کیا۔
اسرائیل میں یہودیوں کی ملکیت میں قائم زیادہ تر دکانیں اور سپر مارکیٹیں یوم السبت کو بند رہتی ہیں۔ تاہم بعض دکانیں کھلی بھی رہتی ہیں تاہم ان کی تعداد متعلقہ علاقے کے مذہبی نظریات کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس دن کا دورانیہ جمعہ کے روز سورج ڈوبنے سے شروع ہو کر ہفتے کے روز کا سورج ڈوبنے تک ہوتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل کی انتہائی قدامت پسند جماعت شَس سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ آریے دری کی طرف سے پیش کردہ اس قانونی بل کی منظوری کے بعد اب اس کا اطلاق نئے قائم ہونے والے کاروباروں پر ہو گا تاہم موجودہ صورتحال برقرار رہے گی۔
شَس اور ایک اور انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت کی طرف سے ہفتے کے روز کاروباری سرگرمیاں ختم کرنے کی یہ کوشش اسرائیلی پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی سیکولر یہودی اکثریت کے غم و غصے کا باعث بنی ہے تاہم ان جماعتوں نے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو دھمکی دی تھی کہ اگر یہ قانون پاس نہ ہوا تو وہ اتحادی حکومت سے الگ ہو جائیں گی اور ایسی صورت میں اتحادی حکومت کو پارلیمان میں حاصل اکثریت ختم ہو جاتی۔
روئٹرز کے مطابق اس قانونی بِل پر کامیاب ووٹنگ دراصل ان قراردادوں میں سے تازہ ترین ہے جو دائیں بازو کے اتحادی ارکان کی طرف لائی جاتی رہی ہیں اور جنہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ حکومت کو پارلیمان میں حاصل انتہائی کم اکثریت کے سبب وہ حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
نیتین یاہو نے پیر آٹھ جنوری کو اپنی سیاسی جماعت لیکود پارٹی کے ارکان کو بتایا تھا کہ مذکورہ قانون پر ووٹنگ ایک طرح سے حکومت پر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ جیسی ہو گی۔ تاہم ان کی جماعت کے ایک رُکن نے بھی اس بِل کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کر دیا جسے پارٹی سے نکال دینے کی دھمکی بھی دی گئی۔