1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان بغاوت کے منصوبہ سازوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے، ترکی

علی کیفی روئٹرز
26 جنوری 2017

انقرہ حکومت نے ایک یونانی عدالت کی جانب سے آٹھ ترک فوجیوں کو ترکی کے حوالے نہ کرنے پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ یونان ترکی میں گزشتہ برس جولائی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے منصوبہ سازوں کو تحفظ دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WT73
Griechenland türkische Ex-Militärs vor dem Obersten Gericht in Athen
23 جنوری 2017ء: یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے ترک فوجی افسر عدالت سے باہر آتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Tzortzinis

ترک وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ یونان گزشتہ جولائی کی ناکام بغاوت کی منصوبہ سازی کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکام ہو رہا ہے۔ ایک خصوصی یونانی عدالت نے جمعرات چھبیس جنوری کو اُن آٹھ ترک فوجی افسروں کو واپس ترکی کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو ترک حکومت کو گزشتہ سال کی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوب ہیں۔

ترک وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یونانی عدالت کے اس فیصلے کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں اور یہ فیصلہ پندرہ جولائی 2016ء کی بغاوت کی کوشش کے دوران مرنے والوں کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ اس بیان کے مطابق ترکی اپنی یہ کوششیں جاری رکھے گا کہ ان فوجیوں کو واپس ترکی کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے:’’ہم اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اُن افراد کو ترک عدلیہ کے سامنے اپنے کیے کا حساب دینے کے لیے واپس نہیں بھیجا جا رہا، جنہوں نے ہمارے صدر کی زندگی کو خطرے میں ڈالا اور بغاوت کی اُس کوشش میں سرگرم حصہ لیا، جس کے دوران 248 انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔‘‘

اس بیان کے مطابق ’یونان، جو ایک حلیف اور ایک ہمسایہ ملک ہے، ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنے میں ناکام رہا ہے‘۔ ترکی یونان پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ اُس نے انتہائی بائیں بازو کے عناصر کے ساتھ ساتھ اُن کُرد عسکریت پسند گروپوں کو بھی اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے، جنہوں نے ترکی میں حملے کیے ہیں۔

Griechenland zwei der acht türkischen Militärs die nach dem Putschversuch ein Asylantrag in Griechenland gestellt haben
دَس جنوری 2017ء: ترکی سے فرار ہو کر یونان پہنچنے والے آٹھ ترکی فوجی افسران میں سے دو (درمیان میں اور دائیں سے دوسرے نمبر پر) یونانی پولیس کی حفاظت میں عدالت جاتے ہوئےتصویر: Reuters/A. Konstantinidis

یہ آٹھ ترکی فوجی افسران، جن میں تین میجر، تین کیپٹن اور دو سارجنٹ میجر شامل ہیں، ناکام بغاوت کے ایک روز بعد سولہ جولائی کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر شمالی یونان میں اُترے تھے، جہاں اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے یونان میں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی تھی کہ ترکی میں اُن کی جانوں کو خطرہ ہے۔ یہ فوجی افسر اپنے خلاف لگائے گئے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ صدر رجب طیب ایردوآن کا تختہ اُلٹے کی اُس کوشش میں اُن کا بھی کوئی کردار تھا، جس کے فوراً بعد ترک فوج  کے ساتھ ساتھ غیر فوجی شعبوں میں بھی تطہیر کا ایک بہت بڑا عمل شروع ہو گیا تھا۔

ترکی میں ان فوجی افسروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ اُنہوں نے آئین کو  منسوخ کروانے، پارلیمنٹ کو تحلیل کروانے، تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک ہیلی کاپٹر اپنے قبضے میں لینے اور صدر ایردوآن کو جان سے مارنے کی کوشش کی تھی۔ ترکی کا مطالبہ ہے کہ یونان ان فوجی افسروں کو، جنہیں وہ غدار قرار دیتا ہے، واپس انقرہ حکومت کے حوالے کرے۔ ترکی  اور یونان ہمسایہ ممالک بھی ہیں اور نیٹو کے بھی رکن ہیں لیکن اس کیس نے ان کے درمیان خراب تعلقات کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔