یونان: تارکین وطن کے حراستی مراکز میں غیر انسانی حالات
8 اپریل 2016جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوری طور پر یونان سے تارکین وطن کو ترکی منتقل کیے جانے کا عمل روکا جائے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کے مطابق ان تارکین وطن کو اس وقت تک واپس نہ بھیجا جائے، جب تک ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی۔
اس بین الاقوامی تنظیم کے مطابق ان تارکین وطن کے بنیادی حقوق میں یہ شامل ہے کہ انہیں معلومات تک رسائی فراہم کی جائے، ان کو قانونی مشیر فراہم کیے جائیں اور ہر ایک کی سیاسی پناہ کی درخواست کا جائزہ لیا جائے جبکہ بچوں کو ان حراستی مراکز سے آزاد کیا جائے۔
قبل ازیں انسانی حقوق کی علمبردار اس تنظیم کو یونانی جزائر پر تارکین وطن کے بنائے گئے حراستی مراکز تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ رواں ہفتے ہی اس تنظیم سے منسلک ایک ٹیم کو چند حراستی مراکز کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اس تنظیم کے مطابق یونان کے ان حراستی مراکز میں ان تارکین وطن کو بھی قید رکھا گیا ہے، جن پر ترکی اور یورپی یونین معاہدے کا اطلاق ہی نہیں ہوتا کیوں کہ وہ بیس مارچ سے پہلے ہی ان جزائر پر پہنچ گئے تھے۔ ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق ان تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے گا، جو بیس مارچ کے بعد یونان کے ان جزائر پر غیرقانونی طریقے سے پہنچیں گے۔
یورپ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل می قائم مقام خاتون سربراہ سربراہ گوری فان گولِک کا کہنا تھا کہ وہاں موجود تارکین وطن شدید خوف اور مایوسی کا شکار ہیں جبکہ جزائر لیسبوس اور خیوس کے حراستی مراکز میں تقریباﹰ چار ہزار دو سو سیاسی پناہ کے متلاشی قید ہیں۔ اس خاتون سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ قیدی نہ تو کیمپ چھوڑ سکتے ہیں، نہ ہی ان معلومات تک رسائی دی گئی ہے اور نہ ہی انہیں قانونی مشاورت کی سہولت میسر ہے۔
ایمنسٹی کی ٹیم نے مجموعی طور پر وہاں موجود تقریباﹰ نوے افراد کے ساتھ گفتگو کی ہے، ان میں بچے، حاملہ خواتین اور بیمار افراد بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی مناسب دیکھ بھال بھی نہیں کی جا رہی۔