1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پناہ گزینوں کی صورت حال ’انتہائی خوفناک‘

1 نومبر 2019

یورپی کونسل کی کمشنر برائے انسانی حقوق نے یونان میں مختلف مہاجر کیمپوں کا دورہ کر کے وہاں مقیم مہاجرین کی صورت حال کو انتہائی خوفناک قرار دیا۔ دوسری جانب یونان سیاسی پناہ کے ملکی قوانین مزید سخت بنانے کا سوچ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3SKYX
Griechenland Flüchtlingslager auf Lesbos
تصویر: Reuters/E. Marcou

یورپی کونسل کی کمشنر برائے انسانی حقوق دنیا میاتووچ کا یونان کے لیسبوس، ساموس اور شہر کورنتھ میں واقع مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد کہنا تھا کہ یہ ایک 'تباہ کن صورت حال‘  ہے۔ ان کیمپوں میں نہ صرف ادویات اور مناسب طبی دیکھ بھال کی کمی ہے بلکہ ٹوائلٹس بھی بہت ہی کم ہیں۔

اس خاتون کمشنر کے مطابق ساموس مہاجر کیمپ میں تو بہت سے خاندانوں نے خود لکڑیاں اکھٹی کر کے ہنگامی رہائش گاہیں تعمیر کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب بیت الخلا میں جانے اور کھانا حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ خاتون کمشنر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ سیاسی پناہ کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ تو زندہ رہنے کی جنگ میں تبدیل ہو چکا ہے۔‘‘

Griechenland Flüchtlingslager auf Lesbos
تصویر: Reuters/E. Marcou

میاتووچ کا یورپی یونین کی طرف سے ملنے والی مالی امداد کی تعریف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف مالی امداد سے حل نہیں ہو گا بلکہ یونانی حکام کو تمام نوکر شاہی رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی تاکہ امداد کا صحیح استعمال ممکن ہو سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یورپی ممالک کو یونان میں موجود مہاجرین کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دینے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔

حالیہ کچھ عرصے سے یونانی جزیروں پر تارکین وطن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یونان کے صرف پانچ جزیروں پر موجود مہاجرین کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وہاں کے مہاجر کیمپوں میں گنجائش کم اور افراد کی تعداد زیادہ ہو چکی ہے۔ یونان کے موریا مہاجر کیمپ میں چودہ ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں اور یہ تعداد وہاں گنجائش سے پانچ گنا زیادہ بنتی ہے۔

ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق یورپی یونین ترکی کے راستے یونان پہنچنے والے تمام مہاجرین کو واپس ترکی بھیجنے کا اختیار حاصل ہے۔ لیکن یونانی اداروں میں ملازمین کی کمی کی وجہ سے سیاسی درخواستوں پر کام ہی انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔

ا ا / ش ح