یونان کشتی حادثہ: درجنوں پاکستانی نوجوانوں کی ہلاکت کا خدشہ
16 جون 2023یونانی سکیورٹی حکام کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے الزام میں، جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ سب مصری شہری ہیں۔ مبینہ طور پر ان کا تعلق انسانی اسمگلنگ کے اس بڑے گروہ سے ہے، جو بحیرہ روم کے راستے انسانوں کی اسمگلنگ کا ذمہ دار ہے۔
دوسری جانب امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اب اس کی امید کم ہی بچی ہے کہ کوئی زندہ مل جائے اور اسی وجہ سے امدادی کارروائیاں محدود بنا دی گئی ہیں۔ آج لاپتا مہاجرین کی تلاش کا آخری دن ہے اور اس کے بعد نہ ملنے والے افراد کو مردہ قرار دے دیا جائے گا۔ بچ جانے والے تارکین وطن کے بیانات کے مطابق ہلاک ہونے والے مہاجرین کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو سکتی ہے۔ ابھی تک مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے صرف 78 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
درجنوں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کا خدشہ
امدادی کارروائیوں کے دوران ایک سو چار افراد کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔ جن افراد کو بچایا گیا ہے، ان میں دس سے زائد پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق بچائے گئے زیادہ تر افراد کا تعلق کوٹلی، گوجرانوالہ، گجرات اور شیخوپورہ سے ہے۔
یونان کے مقامی میڈیا کے مطابق اس حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر سکتی ہے لیکن اس حوالے سے مصدقہ اعداد و شمار آنے تک ابھی کچھ وقت لگے گا۔
دوسری جانب یونان اردو نامی فیس بک پیچ پر ایسے درجنوں پاکستانی نوجوانوں کی تصاویر شئیر کی گئی ہیں، جو مبینہ طور پر متاثرہ کشتی پر سوار تھے اور ابھی تک لاپتا ہیں۔ یونان میں کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے ہیلپ لائینیں قائم کر دی ہیں، جہاں سے بروقت معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ہلاکتوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ سکتی ہے
یونانی خبر رساں ایجنسی اے این اے نے بتایا ہے زندہ بچ جانے والوں کی دیکھ بھال کالاماتا بندرگاہ پر کی جا رہی ہے۔ براڈکاسٹر ای آر ٹی کی خبر کے مطابق ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے کالاماتا میں ہسپتال کے ڈاکٹروں کو بتایا کہ اس نے حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سو سے زائد بچوں کو دیکھا تھا۔
بدھ کے روز حکومتی ترجمان الیاس سیکانتارس نے بتایا کہ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ کشتی میں 750 افراد سوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حکام نے سینکڑوں ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
زندہ بچ جانے والے صدمے میں
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی مقامی اہلکار ایراسمیا رومانا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ واقعی خوفناک ہے۔ زندہ بچ جانے والے بہت بری نفسیاتی حالت میں تھے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''بہت سے لوگ ابھی تک صدمے میں ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ان لوگوں کے بارے میں فکر مند ہیں، جن کے ساتھ وہ سفر کر رہے تھے۔ یہ اپنے اہلخانہ یا دستوں کے بارے میں پریشان ہیں۔‘‘
امدادی تنظیم ریڈ کراس کی ایک نرس ایکاترینی ٹساٹا کا افسردہ لہجے میں کہنا تھا، '' ایک نوجوان نے تو رونا شروع کر دیا اور کہا مجھے اپنی ماں کی ضرورت ہے... یہ آواز میرے کانوں میں ہے اور ہمیشہ اندر رہے گی۔‘‘ جن لوگوں کو زندہ بچایا گیا ہے، ان میں سے کئی کی عمریں 18 برس سے بھی کم ہیں۔