یونیسیف کی جانب سے ’سال کی بہترین تصویر‘ کا ایوارڈ
17 دسمبر 2015پہلا انعام حاصل کرنے والی تصویر پناہ کے متلاشی دو روتے ہوئے بچوں کی ہے اور یہ تصویر یونان اور مقدونیہ کی مشترکہ سرحد پر اتاری گئی تھی۔ یونیسیف جرمنی کی سرپرستِ اعلیٰ ڈانیئلا شاٹ نے جمعرات کو برلن میں جیوری کے فیصلے کا جواز بتاتے ہوئے کہا:’’اس تصویر میں ایک ایسے لمحے کو قید کیا گیا ہے، جس میں یورپ کی گومگو کی کیفیت اور یورپ کی ذمے داری دونوں کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ آپ کو اپنی گرفت میں لینے والی، ذہانت سے اتاری گئی اور ناقابلِ یقین طور پر طاقتور تصویر ہے۔‘‘
اس اعزاز پر شکریہ ادا کرتے ہوئے فوٹوگرافر گیورگی لیکووسکی نے کہا:’’مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ مَیں ایسے تمام بچوں کی تصاویر نہیں اُتار سکا اور اُن تمام آنسوؤں کو گرفت میں نہیں لے سکا، جو بچوں نے پناہ کی تلاش کے سفر میں بہائے ہیں۔‘‘
لیکووسکی نے بتایا کہ یہ سال خود اُن کے اپنے لیے بھی اور اُن کے ساتھی فوٹوگرافروں کے لیے بھی بہت مشکل سال تھا اور بعض اوقات وہ خود بھی اپنے آنسو نہیں روک پاتے تھے۔ لیکووسکی کا کہنا تھا:’’پناہ کے متلاشیوں کی تکلیف اور پریشانی پولیس کی طرف سے آویزاں کی گئی تختیوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔‘‘ لیکووسکی نے امید ظاہر کی کہ اُن کی تصاویر اس دنیا کے سربراہانِ مملکت و حکومت کے دلوں کو چھوئیں گی اور وہ مل کر پناہ گزینوں کے بحران کا حل تلاش کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ دنیا اتنی طاقتور ضرور ہے کہ آسانی سے اس مسئلے کو حل کر سکے، ضرورت محض اچھی نیت اور ارادے کی ہے۔
یونیسیف کے اس مقابلے میں انعام پانے والے دیگر فوٹوگرافروں میں سویڈن کے ماگنُس وَینمان بھی ہیں، جنہوں نے بلقان کے رُوٹ پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کے سوئے ہوئے بچوں کی تصویر اُتاری ہے۔ اُن کی اس تصویر نے دوسرا بڑا انعام حاصل کیا۔ تیسرا انعام امریکی خاتون فوٹوگرافر ہائیڈی لیوین نے حاصل کیا، جن کی تصویر میں غزہ پٹی کے ایک زخمی باپ کو اپنے زخمی بیٹے کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔
انعام یافتہ تصاویر پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے یونیسیف جرمنی کی مجلسِ عاملہ کے رکن پیٹر ماتھیاس گیڈے نے کہا:’’یہ تصاویر ہمیں کتنا ہی کرب میں مبتلا کیوں نہ کرتی ہوں لیکن ہمیں ان کی ضرورت ہے اور وہ اس لیے کہ بہت سے لوگوں کو تکلیف کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے، جب وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ تصاویر ہی ہوتی ہیں، جو ہندسوں کو انسانوں اور اعداد و شمار کو بچوں کی شکل دیتی ہیں۔‘‘
یونیسیف اس مقابلے کا اہتمام معروف جریدے ’جیو‘ کے ساتھ مل کر گزشتہ پندرہ برسوں سے کر رہی ہے۔ اس سال یونیسیف اور ’جیو‘ کی جیوری نے اس مقابلے کی انعام پانے والی تصاویر کا انتخاب تیس ملکوں سے آئی ہوئی 909 تصاویر کو جانچنے کے بعد کیا۔