1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن کا بحران: جرمن چانسلر آج کییف سے ماسکو پہنچ رہے ہیں

15 فروری 2022

جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا ہے کہ مغرب ماسکو کے سکیورٹی خدشات کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

https://p.dw.com/p/4723T
Olaf Scholz in Kiew
تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS

جرمن چانسلر اولاف شولس آج بروز منگل روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے لیے ماسکو پہنچ رہے ہیں۔ وہ ایک طرح سے جنگ روکنے کی کوشش میں ایک اعلیٰ مشن پر ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کل پیر کے روز یوکرائن کا دورہ کیا، جہاں اہم رہنماؤں سے بات چيت کے بعد وہ منگل کی صبح ماسکو کے لیے روانہ ہو گئے۔

ماسکو کے لیے روانگی سے قبل چانسلر شولس نے کہا کہ وہ ماسکو کو مغرب کی طرف سے یہ پیغام دیں گے کہ مغرب روس کے سکیورٹی خدشات کے بارے میں بات چیت کے لیے تیار ہے، تاہم اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو پھر اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

منگل کے روز جرمن چانسلر شولس اور روسی صدر پوٹن کے مابین ہونے والی بات چیت سے قبل جرمنی نے اس حوالے سے بھی متنبہ کیا ہے کہ فی الوقت ’’صورت حال بہت ہی خطرناک ہے اور کسی بھی لمحے کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔‘‘

اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا، ’’کشیدگی میں کمی کی ذمہ داری واضح طور پر روس پر عائد ہوتی ہے اور ماسکو کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس بلائے۔‘‘ بیئربوک نے مزید کہا، ’’ہمیں پرامن حل تک پہنچنے کے لیے بات چیت کے تمام مواقع استعمال کرنا چاہییں۔‘‘

امریکا سمیت بیشتر مغربی مالک نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ماسکو اب 'کسی بھی وقت‘ یوکرائن کے خلاف فوجی حملے شروع کر سکتا ہے۔ تاہم روس ایسے خدشات کی تردید کرتا ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس کی عسکری سرگرمیاں نیٹو کی جانب سے 'بڑھتی ہوئی جارحیت کے سدباب‘ کے لیے ہیں اور وہ یوکرائن پر حملے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا۔

اس دوران امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن بیلجیم پہنچ رہے ہیں، جہاں وہ نیٹو اتحادی ممالک لیتھوانیا اور پولینڈ کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

Deutschland Ukraine Bundeskanzler Olaf Scholz und Präsident Wolodymyr Selenskyj
تصویر: SERGEI SUPINSKY/AFP/Getty Images

سفارتی حل کی امید باقی

دریں اثناء یوکرائن کے بحران کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم کے مابین بھی ٹیلی فون پر طویل گفتگو ہوئی ہے۔ اس بات چيت کے بعد ان دونوں رہنماؤں نے خبردار کیا کہ صورت حال بہت نازک ہے تاہم اس بحران کے سفارتی حل کی امیدیں بھی ابھی باقی ہیں۔

لندن میں وزیر اعظم بورس جانسن کی سرکاری رہائش گاہ سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق امریکی برطانوی رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ یوکرائن کے خلاف دھمکیوں سے پیچھے ہٹنے اور سفارت کاری کی خاطر روس کے لیے اب بھی ایک ’اہم کھڑکی‘ کھلی ہے۔

اس بیان میں کہا گيا ہے، ’’دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یوکرائن میں مزید مداخلت روس کے لیے ایک طویل بحران کا باعث بنے گی، جس سے روس اور باقی دنیا کو شدید نقصان سے دو چار ہونا پڑے گا۔‘‘

ادھر پیر 14 فروری کے روز یوکرائن کے عوام سے اپنے ایک خطاب میں ملکی صدر وولودومیر زیلنسکی نے 16 فروری کو ’یوم اتحاد‘ قرار دیتے ہوئے یوکرائن کی عسکری طاقت کی تعریف کی۔ امریکی حکام کے مطابق روس ممکنہ طور پر بدھ سولہ فروری کو یوکرائن پر حملہ کر سکتا ہے۔

صدر زیلنسکی کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس بھی جواب دینے کے لیے کچھ ہے۔ ہمارے پاس ایک عظیم فوج ہے ۔۔۔ یہ آٹھ سال پہلے کی فوج سے کئی گنا زیادہ مضبوط بھی ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ تمام مسائل کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔

اسی دوران جنگی خطرات  کے بادل گہرے ہوتے جانے کے ساتھ ہی ایک درجن سے زائد ممالک نے اپنے شہریوں کو یوکرائن سے فوری طور پر نکل جانے کے لیے کہا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے فضائی بمباری ’کسی بھی وقت‘ شروع ہو سکتی ہے۔

ص ز / م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

روس اور مغرب کے درمیان پھنسا یوکرائن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں