یوکرائن کی خونریز جنگ کے تین سال، ایک نہ ختم ہوتا تنازعہ
13 اپریل 2017ان تین برسوں کے اندر اندر یورپی براعظم پر جاری اس واحد جنگ میں دَس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا تب تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، جب فروری 2014ء میں اس ملک کے دارالحکومت کییف کی سڑکوں پر لوگ بڑی تعداد میں یورپی یونین کی حمایت میں نکل آئے تھے اور ماسکو نواز حکومت نے جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے روس میں جا کر پناہ لی تھی۔
جب روس نے بحیرہٴ اسود میں واقع یوکرائنی جزیرہ نما کریمیا میں اپنے دستے بھیج دیے تھے اور پھر مارچ 2014ء میں اسے جبراً روس میں شامل کر لیا تھا، تبھی سے اس بات کے واضح آثار نظر آنے لگے تھے کہ ماسکو حکومت یوکرائن کو اپنے دائرہٴ اثر سے نکل کر اتنی آسانی سے مغربی دُنیا کے حلقہٴ اثر میں شامل نہیں ہونے دے گی۔
اس جبری الحاق کے ایک ہی مہینے بعد یوکرائن کے مشرقی صنعتی علاقوں میں مسلح افراد نے، جن کی وردیوں پر کوئی مخصوص نشان نہیں ہوتا تھا، روس کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے حکومتی عمارات کو اپنے قبضے میں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
روس شروع شروع میں اس بات سے انکار کرتا رہا کہ اُس نے کریمیا میں اپنے فوجی روانہ کیے۔ روس آج بھی وہاں کے علیحدگی پسند تنازعے کو ایک ایسی ’خانہ جنگی‘ قرار دیتا ہے، جس میں اُس کا اپنا کوئی کردار نہیں تھا۔
دوسری طرف کییف حکومت اور مغربی دُنیا دونوں کے مطابق اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ ماسکو نے سرحد پار فوجی دستے اور ہتھیار بھیجے اور کامیابی کے ساتھ وہاں پائی جانے والی بے چینی کو ایک جنگ کی صورت دے ڈالی۔
اِدھر مغربی دُنیا بالخصوص یورپی ممالک نے اپنے بالکل ہی قریب جاری اس تنازعے میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی وساطت سے اب تک بہت سی کوششیں کی ہیں لیکن وقفے وقفے سے ہونے والی فائر بندی کے سوا کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ ہر بار فائر بندی کے خاتمے کے بعد اور بھی زیادہ تشدد اور اموات دیکھنے میں آئی ہیں۔
یوکرائن پہلے بھی برسوں کی بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا جبکہ جنگ نے اس ملک کی معیشت کو پاتال میں پہنچا دیا ہے۔ اب وہاں کی فی کس آمدنی باقی یورپ کی اوسط آمدنی کا محض بیس فیصد رہ گئی ہے۔ ابھی چار اپریل کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے یوکرائن کے لیے اپنے سترہ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کے امدادی پیکج کی اگلی قسط کییف حکومت کو دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ذاتی مفادات کے باعث اصلاحات کے عمل کے خلاف شدید مزاحمت ہو رہی ہے۔
ایسے میں لگتا ہے کہ موجودہ صدر پیٹرو پوروشینکو کا 2020ء تک یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے اور کسی روز مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا حصہ بننے کا خواب اتنی جلدی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔