یوکرائن کے مسئلے پر پوٹن اور اوباما کے درمیان گفتگو
29 مارچ 2014یوکرائن کے مسئلے کے حل کے لیے امریکی تجویز یہ ہے کہ رواں ہفتے دی ہیگ میں روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاووروف کو امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کی جانب سے دیے جانے والے پلان کے حوالے سے ماسکو حکومت ایک ٹھوس تحریری جواب دے۔
جمعے کے روز سعودی عرب پہنچنے والے امریکی صدر باراک اوباما نے ایک مرتبہ پھر روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید اشتعال انگیزی سے کام نہ لے اور یورپ کی مشرقی سرحدوں پر فوجی قوت میں اضافے سے اجتناب کرے۔ صدر اوباما نے روس سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کییف حکومت کی ملک میں استحکام اور کشیدگی میں کمی کی کوششوں میں مدد فراہم کرے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق امریکی صدر اوباما نے کہا ہےکہ اگر روس اپنی فوجوں کو واپس بلاتا ہے اور یوکرائن کی سالمیت کو مزید نقصان نہیں پہنچاتا، تو سفارتی طریقے سے اس مسئلے کا حل اب بھی موجود ہے۔
روسی خبر رساں ادارے ایتار تاس کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن نے اوباما پر واضح کیا کہ یوکرائن میں موجود شدت پسند ملک میں کشیدگی کو مسلسل ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرائن کے مختلف علاقوں میں موجود شدت پسند نہ صرف عام شہریوں، اداروں اور سکیورٹی فورسز پر حملے کر رہے ہیں، بلکہ انہیں ایک طرح سے کھلی چھٹی حاصل ہے۔ صدر اوباما کے ساتھ بات چیت میں پوٹن نے بھی یوکرائن کے استحکام کے لیے عالمی کوششوں میں ساتھ دینے کے پیرائے میں بات کی۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ڈی پی اے کو بتایا ہے کہ جان کیری کی جانب سے لاوروف کو دیے جانے والے مجوزہ منصوبے میں ’عمومی عناصر‘ جن میں بین الاقوامی مانیٹرز کی تقرری، روسی فوجیوں کو واپس بلانے اور روس یوکرائن مذاکرات جیسے مطالبات کیے گیے ہیں اور روس سے اس سلسلے میں اقدامات کا تحریری جواب مانگا گیا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق صدر پوٹن نے انہیں کہا ہے کہ روس کا یوکرائن کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔