یوکرائنی بحران کی پیچیدہ صورت حال
5 نومبر 2014منگل کے روز یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے اپنی سکیورٹی چیفس کی میٹنگ طلب کر رکھی تھی اور اِس میٹنگ میں مشرقی یوکرائن میں ہونے والے الیکشن اور بعد کی ممکنہ صورت حال پر غور کیا گیا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ گریگوری کاراسین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مشرقی یوکرائن کے لیڈروں کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہو گیا ہے، اِس لیے کییف حکومت براہِ راست اُن سے مذاکرات کرے۔ پوروشینکو کے مطابق اضافی دستے اِس لیے روانہ کیے گئے ہیں تاکہ وہ حکومتی کنٹرول کے علاقوں کی جانب باغیوں کے اٹھتے قدموں کو فوری طور پر روک سکیں۔
یوکرائنی صدر نے اضافی دستوں کی تعیناتی کا حکم اپنے سکیورٹی چیفس کی ایسی اطلاعات پر دیا کہ اِسی ویک اینڈ پر روس کی جانب سے سرحدی علاقوں کی جانب مزید فوجیوں کی تعیناتی میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پوروشینکو کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان میں بھی کہا گیا کہ اضافی یونٹوں کی تعیناتی کی ضرورت اِس لیے پیش آئی تاکہ باغیوں کی جانب سے میریوپول اور بیردینسک اور خارکیو کی جانب ممکنہ حملوں کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
مشرقی یوکرائنی علاقے میں باغیوں کے انتخابات کے بعد یوکرائنی بحران ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ مغربی اقوام، امریکا اور کییف حکومت نے باغیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں انتخابات کو غیرقانونی قرار دیا جا چکا ہے۔
منگل کے روز ڈونیٹسک کے خود ساختہ و خود مختار علاقے کے سربراہ کے طور پر اڑتیس سالہ الیگزانڈر ذخارچینکو نے انتہائی سخت سکیورٹی میں اپنا حلف اٹھایا۔ حلف برداری کی تقریب ڈونیٹسک کے ایک تھیئٹر میں ہوئی۔ ذخار چینکو نے بائبل پر حلف اٹھایا۔ تقریب میں خود ساختہ ڈونیسک پیپلز ریپبلک کے جھنڈے بھی لہرائے گئے تھے۔ مسلح افراد نے اِس پر موقع پر تالیاں اور سیٹیاں بھی بجائیں۔
اِس تقریب میں جورجیا سے علیحدگی اختیار کرنے والے ابخازیہ اور روسی رکن پارلیمان کے علاوہ تین اور غیر ملکی بھی موجود تھے۔ روسی رکن پارلیمنٹ الیکسی ژُورارلیف نے اِس پر موقع پر کہا کہ اُن کا ملک صورت حال سے پییچھے نہیں ہٹے گا۔ ڈونیٹسک اور لوہانسک علاقے کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے عمل سے اُن کو یہ مینڈیٹ حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنے علیحدگی پسندی کے مقاصد کے حصول کے لیے عملی کوششیں کرسکیں۔
یوکرائن کی نئی پیچیدہ صورت حال پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے منگل کے روز کہا کہ تنازعے میں روسی کردار کے تناظر میں یورپی یونین کی پابندیوں کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرکل نے یہ بھی کہا کہ مشرقی یوکرائن میں الیکشن کی وجہ سے بحرانی حالات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں لیکن یوکرائنی بحران کے سفارتی حل تک ابھی بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
اُدھر امریکا نے مشرقی یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسندوں اور روسی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ یوکرائن کے مزید علاقوں پر قبضے کی کوشش مہنگی پڑ سکتی ہے اور یہ حالیہ امن ڈیل کے سراسر منافی ہو گی۔ دوسری جانب نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ روس کے فوجی یوکرائنی بارڈر کی جانب بڑھتے دیکھے گئے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ روس مسلسل باغیوں کو اسلحے کی فراہمی کے علاوہ تربیت دے کر اُن کی حمایت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ روس نے باغیوں کو امداد فراہم کرنےکی تردید کی ہے۔