یوکرین نے روس سے تازہ مذاکرات کا مطالبہ کر دیا
19 مارچ 2022روسی فوجوں کے گھیرے میں آئے ہوئے یوکرین کے شہر ماریوپول کے میئر کا کہنا ہے کہ اب لڑائی شہر کے مرکز تک پہنچ گئی ہے۔ اس بیان سے روس کے اس مؤقف کی تصدیق ہوتی ہے جس میں روس نے شہر کے اندر زمینی لڑائی کا اعتراف کیا تھا۔ ادھر صدر یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس کی مسلسل گولہ باری ماریوپول میں محفوظ راہداری کے قیام میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
یوکرین کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ماریوپول کے آس پاس روسی پیشقدمی کے سبب بحیرہ ازوف تک اس کی رسائی اب نہیں رہی۔ بیان کے مطابق قبضہ کرنے والے، ''جزوی طور پر ڈونیٹسک کے آپریشن میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے یوکرین بحیرہ ازوف تک رسائی سے عارضی طور پر محروم ہو گيا ہے۔‘‘
اس سے قبل جمعہ 18 مارچ کو روس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اب وہ ماریوپول کے آس پاس 'گھیرا تنگ کرنے جا رہا ہے‘۔
زیلنسکی کا روس سے مذاکرات کا مطالبہ
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے آج ہفتے کے روز ایک ویڈیو خطاب میں روس سے امن اور سکیورٹی کے مسائل پر با معنی مذاکرات کرنے کو کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''روس کے پاس اپنی غلطیوں سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔‘‘
صدر زیلنسکی نے کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ اس وقت آپ سب مجھے سنیں، خاص طور پر ماسکو کے لوگ۔ ملاقات کا وقت آ گیا ہے، بات چيت کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ یوکرین کی علاقائی سالمیت اور انصاف کو بحال کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو، ’’روس کا نقصان اتنا زیادہ ہو گا کہ اس کی بھرپائی کرنے میں آپ کو کئی نسلیں لگ جائیں گی۔‘‘
ویسے روس اور یوکرین کے درمیان دو طرفہ مذاکرات ہفتوں سے جاری ہیں، تاہم اس میں اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
جمعے کے روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جرمن چانسلر اولاف شولس کے ساتھ فون پر بات چیت کی اور مذاکرات کی ناکامی اور اسے روکنے کا الزام یوکرین پر عائد کیا۔
بائیڈن اور چینی صدر میں بات چيت
جمعے کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ویڈیو کال کے ذریعے بات چيت کی اور انہیں روس کے لیے عسکری امداد یا پھر اقتصادی طور پر مدد دینے کے خلاف متنبہ بھی کیا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر نے کہا ہے کہ اگر چین نے روس کی حمایت کی تو اس کے ’مضمرات اور نتائج‘ بر آمد ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، ''صدر نے اس بحران کے سفارتی حل کے لیے اپنی حمایت پر زور دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے ممالک کے درمیان مسابقت کو بھی منظم کرنے کے لیے مواصلات کی کھلی لائنوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا ہے۔‘‘
جو بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان تقریباً دو گھنٹے کی یہ کال ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ تاہم جب یہ سوال پوچھا گيا کہ اگر چین نے روس کی مدد کی تو پھر کس طرح کے مضمرات مرتب ہوں گے، تو وائٹ ہاؤس نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے اس حوالے سے کہا، ’’ہمیں لگتا ہے کہ بیٹھ کر بات چیت کرنا ہی سب سے تعمیری طریقہ کار ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا جو بائیڈن نے یوکرین پر روسی حملے کے معاملے میں چین کو اپنے ساتھ لانے کی کوششوں کے تحت چینی صدر کو کسی طرح کی مراعات کی پیشکش کی ہے؟ اس پر پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا، ’’یہ لین دین کے بارے میں نہیں تھا۔‘‘
بیجنگ نے اس بات چيت کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ صدر شی جن پنگ نے بائیڈن کو بتایا ہے کہ یوکرین میں جنگ جلد از جلد ختم ہونی چاہیے: ’’اب بات چیت اور مذاکرات جاری رکھنا، شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنا، انسانی بحران کو روکنا، لڑائی بند کرنا اور جلد از جلد جنگ کا خاتمہ اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔‘‘
چینی صدر نے کہا کہ تمام فریقین کو مشترکہ طور پر روس- یوکرین مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کو بھی روس سے یوکرین بحران کے ساتھ ساتھ ہی سیکورٹی سے متعلق روس کے خدشات کے بارے میں بھی بات چيت کرنی چاہیے۔
ادھر اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے سبب اندرون ملک تقریباً 65 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ 32 لاکھ لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
ص ز/ا ب ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)