یوکرین پر حملے سے عالمی غذائی بحران کا خطرہ بڑھ گیا، یو این
19 مئی 2022اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں نے غذائی عدم تحفظ کو مزید ہوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یوکرین کی برآمدات کو جنگ سے پہلے کی سطح پر بحال نہ کیا گیا تو دنیا کو برسوں تک قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
بدھ کے روز نیویارک میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے گوٹیرش نے کہا کہ اس تنازعے سے، ’’لاکھوں لوگوں کو غذائی عدم تحفظ کی طرف جانے کا خطرہ لاحق ہے، جو بعد میں غذائی قلت، بڑے پیمانے پر بھوک اور قحط سالی کا روپ اختیار کر سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر ہم مل کر کام کریں تو ہماری دنیا میں اب بھی کافی خوراک موجود ہے۔ لیکن جب تک ہم اس مسئلے کو حل نہیں کرتے، ہمیں آنے والے مہینوں میں خوراک کی عالمی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جنگ سے جڑے مسائل کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں ’’عالمی خوراک کی قلت‘‘ سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ انہیں توقع ہے کہ اگر کوششیں کی جائیں تو اس بحران کو ٹالا بھی جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرینی اناج کی ترسیل کو دوبارہ شروع کرنے اور روسی کھاد کی برآمدات کو بحال کرنے کے لیے وہ روس، یوکرین، ترکی، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ’’گہرے رابطے‘‘ میں ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی میزبانی میں ہونے والی فوڈ سکیورٹی کی میٹنگ کے دوران سکریٹری جنرل نے کہا، ’’میں پر امید ہوں کہ ابھی بھی ایک راستہ باقی ہے۔ سیکورٹی، اقتصادی اور مالیات سے متعلق پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے سبھی کی جانب سے خیر سگالی کی ضرورت ہے۔‘‘
عالمی سطح پر روس اور یوکرین مجموعی طور پر 30 فیصد گندم برآمدات کرتے ہیں لیکن جنگ کی وجہ سے یہ سلسلہ روک گیا ہے، جس کی وجہ سے سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت بیس لاکھ ٹن سے بھی زیادہ گندم کی کھیپیں یوکرین کی بندرگاہوں پر پھنسی پڑی ہیں۔
برآمدات میں کمی کے سبب دنیا کے بیشتر حصوں میں قیمتیں پہلے ہی آسمان کو چھو رہی تھیں تاہم چند روز قبل جب بھارت نے بھی گندم کی برآمدات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تو اس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
جرمن وزير خارجہ کی روس پر تنقید
ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بدھ کے روز ماسکو پر یہ کہہ کر شدید تنقید کی کہ یوکرین پر روسی حملے سے پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا تاہم ماسکو نے حملہ کر کے مشکل صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’روس نے اناج کی ایسی جنگ شروع کی ہے کہ جس سے خوراک کا ایک عالمی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ وہ یہ سب ایک ایسے وقت میں کر رہا ہے، جب لاکھوں لوگوں کو پہلے ہی سے بھوک کے خطرات کا سامنا تھا، خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی جرمن وزیر خارجہ کے ان خیالات کی تائید کی اور کہا، ’’ دنیا کو ہمارے دور کے سب سے بڑے عالمی غذائی تحفظ کے بحران کا سامنا ہے، جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی پسند کردہ جنگ کے باعث مزید شدید ہو گیا ہے۔‘‘
زیلنسکی کے مطابق جنگ طویل ہو گی
ادھر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے بدھ کی رات اپنے ویڈیو خطاب میں یوکرین کی عوام سے اپنے ملک میں ایک طویل جنگ کے لیے تیار رہنے کے لیے کوشش کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا، ’’کھیرسون، میلیٹوپول، برڈیانسک، اینروڈار، ماریوپول جیسے ہمارے وہ تمام شہر اور قصبے، جن پر روس نے قبضہ کر لیا ہے، وہ بس عارضی قبضے میں ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یوکرین انہیں واپس لے کر رہے گا۔‘‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ میدان جنگ کے حالات اس بات کا تعین کریں گے کہ اس علاقے کو یوکرین کے کنٹرول میں واپس آنے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔
دارالحکومت کییف سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم اسے جلد از جلد واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم قابضین کو نکالنے اور یوکرین کی حقیقی سلامتی کی ضمانت دینے کے لیے پر عزم ہیں۔‘‘ اس دوران یوکرین نے بڑے پیمانے پر فوج کی تعیناتی اور مارشل لاء کے نفاذ میں مزید 90 دنوں کے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے 23 اگست تک اسے بڑھا دیا ہے۔
ص ز/ ا ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)