یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے روس میں نئے فوجیوں کی بھرتی کی مہم
1 جولائی 2022مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس کی روس نواز لیکن خود ساختہ جمہوریاؤں ڈونیٹسک اور لوہانسک سے بھرتی کیے گئے مردوں کو بھی روسی فوج کی طرف سے جنگی علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ روسی عسکری حکام فوجی بھرتی کے عمومی مراکز کے ذریعے وسیع پیمانے پر اگرچہ نئے فوجی بھرتی نہیں کر رہے تاہم ماسکو کو موجودہ جنگ میں نئے فوجیوں کی بہت ضرورت ہے۔
روسی فوجیوں کو بحیرہ اسود کے یوکرینی جزیرے سے نکلنا پڑ گیا
مختلف ذرائع کے مطابق لازمی فوجی سروس کے طریقہ کار کے تحت بھی روسی شہریوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ آلیکسانڈر نامی ایک شہری، جو سلامتی وجوہات کی بنا پر اپنا اصل نام نہیں بتانا چاہتے، ایک تجربہ کار فوجی ہیں جو کئی برسوں سے روس میں نہیں رہتے۔ اس کے پاسپورٹ پر مگر ابھی تک ان کا روس میں رہائشی پتہ درج ہے۔ اسی پتے پر ان کے والدین بھی ابھی تک رہائش پذیر ہیں۔ فوجی بھرتی کے ایک مقامی دفتر کی جانب سے حال ہی میں آلیکسانڈر کو اسی پتے پر عسکری طلبی کا ایک پروانہ بھیجا گیا۔ آلیکسانڈر کے مطابق، ''فوجی بھرتی کے دفتر میں میرا نام گزشتہ بیس برسوں سے درج ہے، جب میں فوج میں ایک سپاہی تھا۔ میں ایک تجربہ کار فوجی تو ہوں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ طلبی کس سلسلے میں تھی۔ شاید دوبارہ غیر اعلانیہ بھرتی کے لیے۔‘‘
تجربہ کار سابقہ فوجیوں کی طلب زیادہ
آلیکسانڈر روس کی یوکرین کے خلاف عسکری جارحیت کے مخالف ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اب بھی روس میں ہوتے اور تب انہیں فوجی طلبی کا کوئی خط ملتا، تو وہ جلد از جلد روس چھوڑنے کی کوشش کرتے۔
ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں فوجی خدمات انجام دینے اور جنگی تجربہ رکھنے والے زیادہ سے زیادہ روسی شہریوں کو ایسے فوجی بلاوے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ معاملہ روسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'وی کے‘ پر بھی بحث کا اہم موضوع ہے، جہاں لوگ اس بارے میں مشورے کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے 'سرکاری بلاووں‘ کا مناسب ترین جواب کیسے دیا جائے۔
روسی فوجیوں کے ساتھ حراست میں کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور جنگ کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں؟
روسی شہر ارخنگ لزک میں خواتین کے ایک گروپ کی ایک رکن آنا نے لکھا، ''میرا بیٹا 14 جون کو اپنے دفتر گیا تھا۔ انہوں نے اس کا شناختی کارڈ دیکھا اور پوچھا کہ آیا وہ فوجی بھرتی کا معاہدہ کر کے فوج میں شامل چاہتا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے اسے جانے دیا تھا۔‘‘
باقاعدہ فوجیوں کی بھرتی
روسی شہری آلیکسانڈر گورباچوف ایک وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔ وہ لازمی فوجی خدمات کے لیے بھرتی کیے جانے والوں کی قانونی مشاورت کرتے ہیں۔ انہوں نے یوکرین پر حملے کے آغاز سے لے کر اب تک اور خاص طور پر گزشتہ ماہ کے دوران باقاعدہ فوجیوں کی بھرتی کی مہم میں تیزی کا مشاہدہ کیا ہے۔ ایسی بھرتیاں محدود مدت کے لیے کی جاتی ہیں۔ آلیکسانڈر گورباچوف نے کہا، ''اس سے قبل لازمی بھرتی اور رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دینے والے مردوں کو ہی فوجی ملازمت کے باقاعدہ معاہدوں کی پیشکش کی جاتی تھی۔ تب آپ کے پاس بڑے پیمانے پر کالیں اور سرکاری بلاوے نہیں آتے تھے۔‘‘
روس کے ساتھ جنگ کے دوران ہی یورپی یونین نے یوکرین کو رکنیت کے لیے امیدوار کا درجہ دے دیا
روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں فوجیوں کی ماؤں کی تنظیم 'سولجرز مدرز‘ کی سربراہ اوکسانا پرمانووا کے مطابق، ''اب لگتا ایسے ہے کہ محدود مدت کے فوجی معاہدوں کے ساتھ لازمی بھرتیوں کے لیے تلاش تیز ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ملٹری ریکروٹمنٹ کرنے والوں نے اب غیر معمولی طریقے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔
لازمی فوجی سروس کے لیے عمر اور دورانیہ
روس میں 18 سے 27 سال تک کی عمر کے مرد شہری قانوناﹰ ایک سال تک لازمی فوجی خدمات انجام دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان نوجوانوں کو ہی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جن کی صحت ملٹری سروس کی اجازت نہ دیتی ہو۔ طلبا اپنے عرصہ تعلیم کے دوران اس لازمی فوجی سروس کو مؤخر کر سکتے ہیں۔ ماضی میں اکثر لازمی بھرتی کے طریقہ کار کی خلاف ورزی بھی ہوتی رہی۔
اوکسانا پارمانووا کے مطابق اس سال تو کچھ بے نظیر واقعات بھی سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ طلبا کو ان کا آخری تعلیمی سال مکمل ہونے سے قبل ہی لازمی فوجی سروس کے لیے بلا لیا گیا۔ ایسے مرد جن کی صحت فوجی خدمات کی انجام دہی کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، انہیں بھی بلا لیا گیا۔ پارمانووا نے ان بارے میں کئی ایسی شکایات کے حوالے بھی دیے، جو ان فوجیوں کی ماؤں کی طرف سے 'سولجرز مدرز‘ نامی تنظیم کو اس کی ہاٹ لائن پر موصول ہوئی تھیں۔
کام کی جگہوں پر بھی عسکری بلاوے
پارمانووا نے کہا کہ حکام اب مختلف کمپنیوں سے براہ راست ان ملازمین کی فہرستوں کے ساتھ رابطے کر رہے ہیں، جن کی خدمات انہیں درکار ہوتی ہیں۔ ماضی میں یہ کوئی معمول کی بات بالکل نہیں تھی۔ روسی قانون کے مطابق کام کی جگہ پر موصول ہونے والے حکم ناموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پارمانووا نے کہا کہ فوجی بھرتی کے دفاتر ابھی تک کسی کو بھی عسکری معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور نہیں کر رہے۔
'روس نے یوکرین میں وہی کیا جیسا جرمنی نے سوویت یونین کے ساتھ کیا تھا'، زیلنسکی
روسی جمہوریہ چیچنیا میں فوجی بھرتی دفاتر کا معاملہ عام اصولوں سے مستثنیٰ ہے۔ روسی زبان کے ایک آن لائن اخبار 'دی انسائڈر‘ نے حال ہی میں لکھا کہ جمہوریہ چیچنیا میں حکام اغوا، تشدد اور فوجداری کارروائیوں کے طریقے استعمال کرتے ہوئے مقامی مردوں کو محاذ پر جانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔
بے مثال تنخواہیں
بہت سی جگہوں پر لوگوں کو جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال موبائل بھرتی دفاتر کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، جو کافی حد تک معمول کی بات بن گئی ہیں۔ مئی کے آخر میں ملکی صدر ولادیمیر پوٹن نے فوجی خدمات کے لیے عمر کی حد ختم کر دی تھی۔ اب 40 سال سے زیادہ عمر کے شہری بھی بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔ بہت سے روسی مرد ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ انتہائی پرکشش تنخواہیں بھی ہیں۔
یوکرین کی جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے، نیٹو سربراہ کی تنبیہ
فوجی بھرتی کی کوششوں کے تحت بہت سے اشتہارات بھی دیے گئے۔ ان اشتہارات کے مطابق عسکری بھرتی کے معاہدوں پر دستخط کرنے والوں کو فی کس دو لاکھ روبل (3500 ڈالر) ماہانہ تنخواہ ملے گی۔ یہ رقم ایک عام روسی شہری کی اوسط ماہانہ تنخواہ کے پانچ گنا سے بھی زیادہ ہے۔ آلیکسانڈر گورباچوف کے مطابق امن کے دور میں روسی فوجیوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روبل تھی۔
فوجی بھرتی کے لیے شائع شدہ اشتہارات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اتنی زیادہ تنخواہ صرف جنگی علاقوں میں تعیناتی کی صورت میں ہو گی یا بالعموم۔ ایک اشتہار کے آخر میں لکھا گیا تھا، ''خصوصی فوجی آپریشنکے دوران چار ماہ یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ روس میں 'خصوصی فوجی آپریشن‘ ایک ایسی اصطلاح ہے، جو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پندرہ ہزار روسی کروڑ پتی ترک وطن کے خواہش مند، برطانوی حکومت
جبری طلبی کوئی خفیہ مہم نہیں
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ایک سینئر تجزیہ کار اولیگ اگناتوف نے کہا کہ یوکرین میں جنگی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے جبری طلبیوں کا معاملہ کوئی خفیہ مہم نہیں ہے۔ بہت سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور فوجی حکام کا خیال تھا کہ صدر پوٹن نو مئی کو عمومی فوجی بھرتی کا اعلان کریں گے۔ تاہم پوٹن نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اولیگ اگناتوف کے بقول مستقبل میں ایسے کسی اعلان کو اب بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
روس یوکرین کے خلاف جنگ ’ہار‘ چکا ہے، برٹش آرمڈ فورسز چیف
انہوں نے کہا کہ اب تک شاید یہ فیصلہ سیاسی وجوہات کی بنا پر پس پشت ڈالا گیا۔ اگناتوف نے کہا کہ یوں جنگ کے غیر فعال حامیوں کو تیزی سے سرگرم مخالفین بنایا جا سکتا ہے اور روسی رہنما نہیں چاہتے کہ عوامی عدم اطمینان کو مزید ہوا ملے۔
اگناتوف نے کہا کہ اب تک روس کے مؤثر توپ خانے کی طاقت نے ڈونباس میں پیش قدمی کے دوران ماسکو کی بری فوج میں خامیوں کی تلافی کی ہے۔ تاہم ان کے خیال میں روسی فوج ڈنیپرو، اوڈیسا یا کییف جیسے یوکرینی شہروں پر قبضے کی اہل نہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہم نہیں جانتے کہ روس یوکرین میں کتنا آگے جانا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اپنے عسکری اہداف سے دور بھی نہیں ہو رہا۔ پھر بھی اگر یوکرین کی جنگ ماسکو کے لیے کسی بند گلی کا سفر بن گئی، تو کریملن کی طرف سے ملک میں عام فوجی بھرتی کا آغاز کوئی غیر متوقع فیصلہ بھی نہیں ہو گا۔‘‘
ش ر / م م (سیرگئی ستانوفسکی)