یوکرینی جنگ میں روس سے متعلق بھارتی رویہ متزلزل، بائیڈن شاکی
22 مارچ 2022امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے دیگر اتحادیوں کے مقابلے میں بھارت ایک استثنیٰ ہے، جس کا یوکرین کی جنگ میں روس کے حوالے سے ردعمل ’کچھ حد تک متزلزل‘ رہا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی کاروباری رہنماؤں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یوکرین پر روسی حملے سے متعلق بہتر رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے نیٹو، یورپی یونین اور کوآڈ گروپ کے رکن جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی خاص طور پر تعریف کی۔
کوآڈ ممالک میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت شامل ہیں۔ یہ ممالک ایک مشترکہ سکیورٹی مکالمت کا حصہ ہیں، جس کی ابتدا ٹوکیو نے سن 2007ء میں کی تھی۔ اب لیکن امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین پر روسی فوجی حملے پر بھارت کے رد عمل سے خوش نہیں ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا، ’’جہاں تک صدر پوٹن کی جارحیت سے نمٹنے کا معاملہ ہے، تو پورے نیٹو اور بحرالکاہل کے خطے کا ایک متحدہ محاذ ہے۔ اس میں ممکنہ طور پر کوآڈ بھی بھارت کے استثنیٰ کے ساتھ شامل ہے، جو اس حوالے سے کچھ امور پر متزلزل رہا ہے۔ لیکن جاپان کا ردعمل بہت مضبوط رہا ہے اور اسی طرح آسٹریلیا کا بھی۔‘‘
بھارتی موقف ہے کیا؟
بھارت نے تقریباﹰ سبھی مغربی ممالک کے برعکس ابھی تک روسی فوجی حملے کی مذمت نہیں کی اور اس بارے میں اقوام متحدہ میں روس کے خلاف پیش کردہ مذمتی قرارداد پر رائے شماری میں بھی بھارت نے اپنی رائے محفوظ رکھی تھی۔ اس لیے بھارت کے موقف پر نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔
اس سے قبل برطانیہ نے بھی دبے الفاظ میں بھارتی موقف پر تنقید کی تھی۔ تاہم مغربی ممالک کے اصرار کے باوجود بھارت نے روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ووٹنگ کے سارے عمل سے ہی غیر حاضر رہا تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ روس نہ صرف بھارت کو دفاعی ساز و سامان مہیا کرتا ہے بلکہ اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اس حوالے سے روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات ہیں۔
بھارتی حکومت نے یوکرین اور روس کے تنازعے میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ عملی طور پر روس کے مفاد میں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈيا پر سخت گیر موقف رکھنے والے ہندو بھی کھل کر ماسکو کی حمایت کر رہے ہیں۔ دیکھا یہ گيا ہے کہ بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، یوکرین کی جنگ میں کییف کے بجائے روس اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حمایت کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صدر پوٹن اور وزیر اعظم نریندر مودی کے عوامیت پسند سیاسی انداز بھی باہم مماثل ہیں۔ میڈیا امور کے تاریخ دان راکیش بٹیال نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دونوں رہنما اپنی اپنی شخصیات میں ایک مضبوط مردانہ ساکھ پیش کرتے ہوئے قوم پرستی، آمرانہ طرز حکومت اور سخت طرز قیادت کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
بھارت روس سے سستا تیل خرید رہا ہے
ایک ایسے وقت پر جب مغربی ممالک روس پر معاشی پابندیوں سے اسے جھکانے کی کوشش کر رہے ہیں، بھارتی کمپنیاں روس سے رعایتی داموں پر خام تیل خریدنے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں بھارتی وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ بھارت مغربی ممالک کی روس کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کا جائزہ لے رہا ہے اور روس کے ساتھ لین دین کے لیے ادائیگی کے طریقہ کار پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
روسی یوکرینی تنازعے میں بھارت پر مغرب کا دباؤ کافی زیادہ ہے تاہم نئی دہلی اپنے بقول اپنے غیر جانبدار ہونے کے دیرینہ موقف پر قائم ہے۔ مغرب کو اب بھی امید ہے کہ شاید بھارت اپنا موقف بدل لے۔ چند روز قبل ہی جاپانی وزیر اعظم نئی دہلی میں تھے اور اطلاعات کے مطابق ان کی یوکرین کے تنازعے سے متعلق وزیر اعظم مودی سے تفصیلی بات چيت ہوئی تھی۔
گزشتہ روز ہی آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین بھی ایک ورچوئل ملاقات میں تبادلہ خیال ہوا، جس میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تھا۔ آسٹریلیا تاہم پہلے ہی یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ اس بارے میں بھارت کی مجبوری سمجھتا ہے۔