یکم جولائی، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء شروع
29 جون 2011یکم جولائی کا دن افغانستان کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اس روز افغانستان سے بین الاقوامی افواج کی مرحلہ وار واپسی کا عمل شروع ہو گا۔ ابتدا میں امریکہ اپنے تیس ہزار فوجی واپس بلائے گا جبکہ اگلے برسوں کے دوران جرمن فوجیوں کی تعداد بھی کم کر دی جائے گی۔ اس طرح افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء 2014ء کے اواخر تک مکمل ہو جائے گا۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تین اہداف حاصل کرنا تھے، القاعدہ کو ختم کرنا، ایک جمہوری نظام قائم کرنا اور افغانستان کے آس پاس کے خطے کو مستحکم کرنا۔
یوہانس فلوگ افغانستان کے حوالے سے ایک ٹاسک فورس کے ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے القاعدہ کے خاتمے اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی بات جائے تو یہ وہ واحد ہدف ہے، جسے کافی تک حاصل کر لیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہی کہ القاعدہ کا اب کوئی مرکز نہیں رہا۔ اس تنظیم کی سرگرمیاں اب افغانستان سےکنٹرول نہیں ہو رہیں بلکہ کسی دوسری جگہ سے۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ طالبان اور دیگر اسلامی گروپ دہشت گردی ترک کر دیں گے۔
رواں برس 5 دسمبرکو بون شہر میں ایک افغان کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی۔ اس کانفرنس میں عالمی برداری اُس صورتحال پر غور کرے گی، جو آئی سیف دستوں کے بعد کے افغانستان میں پیدا ہو گی۔ ساتھ ہی تعمیر نو کے منصوبوں پر بھی بات ہو گی کہ کس طرح غیر ملکی افواج کی غیر موجودگی میں ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جائے۔
جرمنی میں افغان امور کے ماہرین اس امر پر بحث کر رہے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کو فوجی آپریشن سے نہیں بلکہ صرف مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، ایسے سیاسی مذاکرات، جن میں طالبان بھی شامل ہوں۔ افغانستان کے لیے جرمن حکومت کے خصوصی نمائندے مشائیل شٹائنر کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں طالبان کی شرکت مشروط ہونی چاہیے۔’’پہلی شرط ملک کے موجودہ آئین کولازمی طور پر تسیلم کرنا، دوسری یہ کہ جو بھی اس عمل میں شریک ہو، اس کا دہشت گردی سے کسی قسم کا تعلق نہ ہو۔ اور تیسری شرط یہ ہونی چاہیے کہ تشدد کے راستے کو خیر باد کہنا ہو گا‘‘۔
اگر موجود صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو تصویرکچھ اور ہی رخ دکھا رہی ہے۔ ابھی تک کسی بھی سال کے آغاز میں اتنے خود کش حملے نہیں ہوئے، جتنے کہ رواں سال اب تک ہو چکے ہیں۔ 2014 ء کے آخر تک افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داری افغان فوج اور پولیس کے ہاتھوں میں ہو گی۔ آئی سیف دستے افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اگلے برس نومبر تک ایک لاکھ بہتر ہزار فوجی اور ایک لاکھ چونتیس ہزار پولیس اہلکار تیار کیے جا چکے ہوں گے۔
رپورٹ: ڈانیل شیشکے وٹس / عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی