'جمہوریت سے متعلق ہمیں سبق پڑھانے کی ضرورت نہیں'، بھارت
2 دسمبر 2022بھارت نے یکم دسمبر جمعرات کے روز رواں مہینے کے لیے اقوام متحدہ کی 15 ملکی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی ہے۔ اس دوران بھارت انسداد دہشت گردی اور متعدد کثیرالجہتی اصلاحی میٹنگوں کی میزبانی کرے گا۔
'دا کشمیر فائلز' کے خلاف سرعام بولنا آسان نہ تھا، اسرائیلی فلم ساز
اقوام متحدہ میں بھارت کی مستقل مندوب روچیرا کمبوج نے جب صدارت کا عہدہ سنبھالا تو ان سے بھارتی جمہوریت کی گرتی ہوئی ساکھ اور پریس کی آزادی کے حوالے سے سوال کیا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے اپنے سخت رد عمل میں تمام خدشات اور تشویشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اس بارے میں سبق دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
'تاریخ کو صحیح اور شاندار انداز میں لکھنے کا وقت آ گیا ہے'، مودی حکومت
بھارتی سفیر نے کیا باتیں کہیں؟
محترمہ کمبوج اقوام متحدہ میں بھارت کی پہلی مستقل خاتون سفیر ہیں۔ انہوں نے بھارتی صدارت کے پہلے دن ماہانہ پروگرام کے تحت اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے خطاب کیا۔
بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی خدمات لینے پرسخت نتائج کی دھمکی
اس دوران جب ان سے موجودہ بھارت میں جمہوریت اور آزادی صحافت سے متعلق سوال کیا گیا، تو انہوں نے اس حوالے سے پائی جانے والی تمام تشویشات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا، ''میں یہ کہنا چاہوں گی کہ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جمہوریت کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، بھارت شاید دنیا کی سب سے قدیم تہذیب ہے۔ بھارت میں جمہوریت کی جڑیں 2500 سال پرانی ہیں، ہم ہمیشہ سے ہی جمہوری تھے۔ جہاں تک حالیہ وقت کی بات ہے، تو مقننہ، ایگزیکٹو، عدلیہ اور چوتھے اسٹیٹ
پریس سمیت جمہوریت کے چاروں ستون برقرار ہیں۔ایک بہت متحرک سوشل میڈیا بھی موجود ہے، لہذا یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔''
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا''ہر پانچ برس بعد الیکشن کر کے ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوری مشق کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق کہنے کے لیے آزاد ہے اور ہمارا ملک اسی طرح کام کرتا ہے۔ تیزی سے اصلاح کر رہا ہے اور بدل بھی رہا ہے۔ اور اس کی رفتار بھی کافی متاثر کن رہی ہے۔"
''مجھے یہ سب خود کہنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو میری یہ بات سننے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ دوسرے بھی یہ باتیں کہہ رہے ہیں۔''
بھارت جمہوریت آمریت کی طرف
امریکہ سمیت مغربی ممالک کے بہت سے ادارے نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں بھارت میں پریس کی آزادی اور جمہوریت کا معیار تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔
خاص طور پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں میڈیا اور پریس پر جس طرح کی بندشیں عائد ہیں اس پر کافی سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ خود بھارت نواز کشمیری رہنما بھی یہی کہتے ہیں کہ خطہ کشمیر میں کسی بھی طرح کی جمہویرت نہیں ہے۔
گزشتہ برس امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے معروف ادارے 'فریڈم ہاؤس' نے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے ''جزوی طور پر آزاد'' ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔ گزشتہ تقریبا 25 برسوں میں پہلی بار بھارت کی درجہ بندی میں یہ تنزلی دیکھی گئی تھی۔
اس ادارے کی رپورٹ میں، ''متعدد برسوں کے ایسے طریقہ کار کا حوالہ دیا گیا تھا، جس کے تحت ہندو قوم پرست حکومت اور اس کے اتحادی بڑھتے ہوئی پر تشدد کارروائیوں اور تفریق پر مبنی سلوک کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔''
رپورٹ میں کہا گیا تھا: ''مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی رہنمائی میں انسانی حقوق کی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے، دانشوروں اور صحافیوں پر دھونس جمانے اور لنچنگ سمیت مسلمانوں پر سلسلہ وار متعصبانہ حملے جاری رہے ہیں۔''
اس میں مزید کہا گیا، ''جمہوری اقدار کے چیمپیئن کے طور پر کام کرنے اور چین جیسے آمرانہ ممالک کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی بجائے، مودی حکومت اور ان کی پارٹی المناک حد تک بھارت کو آمریت کی جانب لے جا رہی ہے۔''
رپورٹ کے مطابق مودی کے 2019 ء میں دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہونے اور کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت نے جو اقدامات کیے اس سے انسانی حقوق کے مزید متاثر ہو نے جیسی وجوہات کے سبب بھارتی آزادی کی ریکنگ میں اس قدر تنزلی آئی ہے۔
واشنگٹن میں واقع اس ادارے نے ''فریڈم ان دی ورلڈ'' عنوان سے جو رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔