’یہ جنگ آپ نے شروع کی‘: اوباما کے نام خالد شیخ محمد کا خط
9 فروری 2017اوباما کے نام اپنے اس خط میں خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ کہ ’گیارہ ستمبر کو یہ ہم نہیں تھے، جنہوں نے جنگ شروع کی بلکہ یہ تم اور ہمارے ملک میں تمہارے ڈکٹیٹرز تھے‘۔ خالد شیخ محمد کی جانب سے 18 صفحات پر مبنی اس خط میں صدر اوباما کو ایک ’ظالم اور جارح ملک کا رہنما‘ اور ’سانپ کا سر‘ قرار دیا گیا۔
اس خط پر آٹھ جنوری 2015ء کی تاریخ درج ہے جب کہ یہ خط تقریباً دو سال کی تاخیر سے باراک اوباما کی مدتِ صدارت کی تکمیل سے کچھ روز قبل وائٹ ہاؤس پہنچا۔ اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، بلکہ ہمارے علاقوں پر تم نے پہلے قبضہ کیا تھا۔‘‘ بتایا گیا ہے کہ یہ خط تب اپنی منزل کی جانب روانہ کیا گیا، جب ایک ملٹری جج نے گوانتانامو حراستی کیمپ کو اس خط کو بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔
اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا کے ہاتھ غزہ میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس خط کی ایک نقل وکیل صفائی ڈیوڈ نیوین نے جاری کی ہے اور بتایا ہے کہ خالد شیخ محمد نے یہ خط سن 2014ء میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ابھی یہ خط امریکی فوج کی گوانتانامو کی سماعتوں سے متعلق ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا ہے۔
خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے روز خدا اُن ہائی جیکرز کے ساتھ تھا، جنہوں نے طیارے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کی جڑواں عمارتوں کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہٴ دفاع اور پنسلوانیا میں ایک کھیت سے ٹکرائے:’’اللہ نے نائن الیون کرنے، سرمایہ دارانہ معیشت کو تباہ کرنے اور تمہارے جمہوریت اور آزادی کے طویل عرصے سے چلے آ رہے د عوے کی منافقت کا پول کھولنے میں ہماری مدد کی۔‘‘
اس خط میں خالد شیخ محمد نے ویت نام سے لے کر ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں تک امریکا کی طرف سے کیے گئے ’بے رحمانہ اور وحشیانہ قتلِ عام‘ کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اپنے غم و غصے کا نشانہ اسرائیل اور ’قابض یہودیوں‘ کے لیے امریکی حمایت کو بنایا ہے اور فلسطینیوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا ہے۔ افتتاحی پیراگراف میں لکھا گیا ہے:’’تمہارے ہاتھ ہمارے اُن بہن بھائیوں اور بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جو غزہ میں ہلاک کیے گئے۔‘‘
اس خط کے ساتھ خالد شیخ محمد نے اکیاون صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی روانہ کیا ہے، جس کا عنوان ہے:’’جب صلیبی (جنگجو) سزائے موت پر عملدرآمد کریں تو کیا میں مر جاؤں؟ موت کے بارے میں حقیقت۔‘‘ اس کے ساتھ ہاتھ سے پھانسی کے پھندے کی ایک تصویر بنائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ خالد شیخ محمد کو تقریباً تین ہزار انسانوں کی موت کا باعث بننے والے گیارہ ستمبر 2001ء کے حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں سزائے موت ہو سکتی ہے تاہم اُس کا کہنا ہے کہ وہ موت سے خائف نہیں ہے۔ اُس نے اس خط میں لکھا ہے:’’میں موت کے بارے میں مسرت کے ساتھ بات کرتا ہوں۔‘‘
خالد شیخ محمد کو امریکا سے باہر کسی جگہ واقع خفیہ ادارے سی آئی اے کی ایک خفیہ جیل میں رکھا گیا اور مارچ 2003ء میں ایک سو تریاسی مرتبہ واٹر بورڈنگ کے اُس اذیتی عمل سے گزارا گیا، جس میں انسان کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے۔
اس خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے:’’اگر آپ کی عدالت نے مجھے عمر قید کی سزا دی، تو بھی مجھے خوشی ہو گی کہ میں باقی ساری زندگی خدا کی عبادت کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے گزار دوں گا۔ اور اگر مجھے موت کی سزا دی گئی تو میں خوش ہوں گا کہ اپنے اللہ سے اور پیغمبروں سے جا کر ملوں گا اور اُن بھائیوں سے ملاقات کروں گا، جنہیں آپ نے دنیا بھر میں نا انصافی سے کام لیتے ہوئے مار ڈالا اور جا کر اُسامہ بن لادن کو دیکھوں گا۔‘‘