پاکستان میں اب تک چار فوجی حکمران آئے، جنہوں نے مجموعی طور پر پچھتر برس میں سے بتیس برس براہ راست حکومت کی اور تینتالیس برس بلاواسطہ انداز میں ریاستی اختیارات استعمال کیے۔
جو بھی فوجی حکمران براہِ راست آیا اس نے آتے ہی چار باتیں ضرور کہیں۔ اوّل، مجھے مجبوراً باگ ڈور سنبھالنا پڑی ۔ دوم، میرا مقصد بے یقینی و ملکی سالمیت کو لاحق اندرونی خطرات کا تدارک اور پٹڑی سے اترے سیاسی نظام کو مروجہ آئین و قوانین کے ڈھرے پر پھر سے چڑھانا ہے ۔ سوم، میں ضرورت سے ایک دن بھی زائد اقتدار میں نہیں رہوں گا۔ چہارم، جونہی حالات نے اجازت دی جمہوری عمل بحال ہو جائے گا اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ مگر اس سے پہلے کچھ ضروری اصلاحات اور احتساب ضروری ہے تاکہ دوبارہ ایسی نوبت نہ آئے۔
اور جب فوجی قیادت اقتدار کی امانت ”منتخب نمائندوں‘‘کے حوالے کر کے خود پسِ پردہ چلی جاتی ہے تو پھر تکرار کے ساتھ یہ گردان ہوتی ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ فوج ایک قومی ادارہ ہے جو طے شدہ آئینی حدود میں رہ کر کام کرتا ہے۔ سیاستداں آپس کی لڑائیوں میں ادارے کو نہ گھسیٹیں اور اس کے اصل کام یعنی سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی و بیرونی خطرات سے نپٹنے کے بنیادی فرض پر توجہ مرکوز رہنے دیں۔
گزری جمعرات قومی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے فوج کے محکمہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک کھلی پریس کانفرنس میں یہ بات کھل کے دہرائی کہ ادارتی سطح پر فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ آئندہ فوج سیاسی معاملات میں بالکل دخل نہیں دے گی اور طے شدہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے منتخب سویلین حکومت کی قانونی مدد کی پابند ہو گی۔ لہذا فوج کو آپس کی سیاسی لڑائی میں گھسیٹنے یا ادارے پر بے بنیاد الزام تراشی سے گریز کرنا ہی ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔
یہ بھی وضاحت کی گئی کہ فوج کو سیاسی امور میں مکمل غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ محض موجودہ سپاہ سالار اور عسکری قیادت کا نہیں بلکہ ان تمام اعلیٰ افسروں کا ہے جنہیں اگلے پندرہ سے بیس برس کے دوران اس ادارے کا نظم و نسق سنبھالنا ہے۔
اصولی طور پر اس اعلان کا خیرمقدم کرنا تو بنتا ہے، مگر کیسے پتا چلے گا کہ ان وعدوں پر حال اور مستقبل میں پوری طرح کاربند رہا جائے گا اور کسی بھی جانب سے کسی بھی نوعیت کی ترغیب و تحریص و عذر خواہی کو جھٹک دیا جائے گا۔
جس دن سپاہ سالار صدر اور وزیرِ اعظم سے براہ راست ملنے کے بجائے سیکرٹری دفاع اور وزیرِ دفاع کے طے شدہ محکمہ جاتی چینل کے توسط سے اعلیٰ ترین ریاستی قیادت تک اپنی معروضات پہنچانا کافی سمجھے گا اور صدر اور وزیرِ اعظم دفاعی امور کے معاملات میں سیکرٹری و وزیرِ دفاع کو بنیادی اہمیت دینا شروع کریں گے ( جیسا کہ دیگر جمہوری ممالک میں ہوتا ہے)۔
جس دن دفاعی بجٹ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں بحث و مباحثے اور رد و بدل کے بعد قومی اسمبلی سے منظور ہوگا اور اس کی غیر حساس تفصیلات تک قومی بجٹ کی طرح میڈیا کی رسائی ہو گی (جیسا کہ دیگر جمہوری ممالک میں روایت ہے)۔
جس دن فوج یا متعلقہ حساس ذیلی ادارے منتخب حکومت کے کہنے پر ایک ایک لاپتا شہری کا کھوج لگانے میں انتظامیہ اور عدلیہ سے ریاست کے فعال بازو کی حیثیت سے مکمل تعاون کرنا شروع کر دیں گے (جیسا کہ دیگر جمہوری ممالک میں ہوتا ہے)۔
جس دن فوج اور متعلقہ ذیلی اداروں کی دفتری لاگ بک میں ہر اس سیاستداں کا نام ضروری تفصیل کے ساتھ درج ہوگا، جس نے کسی بھی کام کے سلسلے میں مرکزی یا ذیلی عسکری اداروں کے متعلقہ عہدیداروں سے ملاقات کی ہو اور پھر اس ملاقات کی پریس ریلیز بھی میڈیا کے لیے جاری ہونا شروع ہو جائے۔
جس دن یہ اعلان ہو کہ عسکری و نیم عسکری اداروں کا کسی نجی کمرشل سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے تمام کمرشل ادارے ملکی ٹیکس قوانین اور مالیاتی ضوابط کے اسی طرح پابند ہوں گے، جیسے کارپوریٹ سیکٹر ہوتا ہے۔ دفاعی ضروریات کے تحت دی گئی اراضی کو کسی کمرشل مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا ( جیسا کہ اکثر جمہوری ریاستوں میں ہوتا ہے)۔
جس دن داخلہ و خارجہ و اقتصادی پالیسیوں کے وضع کرنے کا کام صرف اور صرف منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کے دائرے تک محدود ہو گا۔
جس دن تمام عدالتی فیصلوں کا تمام حساس و غیر حساس، عسکری و سویلین ادارے مکمل احترام کرنا شروع کریں گے اور کسی بھی غیر متعلقہ اہلکار بھلے اس کا براہ راست یا بلاواسطہ تعلق کسی بھی حساس و غیر حساس ادارے سے کیوں نہ ہو کسی بھی ادنیٰ و اعلیٰ جج سے براہ راست یا مواصلاتی رابطہ صرف اور صرف وزارتِ قانون کے توسط سے کرنے کا پابند ہو گا۔
جس دن پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نامعلوم نمبروں کے استعمال کی سہولت ختم کر دے گی اور ہر نمبر اسکرین پر چمکے گا۔
تب کہیں جا کے عمومی سطح پر یہ اعتماد پیدا ہونا شروع ہوگا کہ واقعی ہم اپنا زور زبردست ماضی پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک جدید جمہوری ریاست کی حدود میں قدم رکھ رہے ہیں، جہاں تمام ادارے عوامی رائے، خواہش اور حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے آئینی و قانونی دائروں میں گردش کرنا سیکھ چکے ہیں۔
ورنہ تو وعدوں اور یقین دہانیوں کی فلمیں یہ قوم پہلے دن سے دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ فرق بس اتنا پڑا ہے کہ پہلے یہ بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ اب اس میں اصل کہانی سے توجہ بٹانے کے لیے کئی آئٹم سانگ بھی ڈال دیے جاتے ہیں۔