اب حال یہ ہے کہ گزشتہ چند روز کی مسلسل بارش کی وجہ سے درجنوں گھروں کی چھتیں گر چکی ہیں اور جو باقی بچی ہیں، وہ رہنے کے لائق نہیں کیونکہ وہ جگہ جگہ سے رِس رہی ہیں۔ یہ گاؤں نہیں ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہے، جس کا اپنا ایک سسٹم ہے۔ جن کے گھر ٹوٹ چکے ہیں یا رہنے کے لائق نہیں رہے، ان کو حکومتی آسرے پر نہیں چھوڑا گیا بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت فوری ریلیف بھی مل چکا ہے۔
یہ تو ایک چھوٹے سے گاؤں کی بات تھی، جس میں مشکل سے ستر گھر ہیں لیکن سوچیں سندھ کے باقی حصوں میں، جہاں لوگوں کے مکان ہیں ہی کچے، وہ کس عذاب سے گزر رہے ہوں گے؟
احمدپور کے ایک گاؤں میں سیلابی پانی کی وجہ سے گاؤں کے سارے کچے مکان بہہ گئے، جس کی وجہ سے ایک سو سے زائد سیلاب متاثرین نے مسجد میں پناہ لے رکھی تھی اور پھر اس مسجد کی چھت بھی گر گئی۔
اس واقعے میں 15 افراد ہلاک اور ستر سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ پورا دن رابطہ منقطع رہنے کی وجہ سے کافی وقت تک کوئی ریسکیو ٹیم حادثے کی جگہ پر نہ پہنچ سکی اور لوگ ملبے تلے دبے رہے۔
یہ تو ایک ایسے گاؤں کی کہانی ہے، جس میں 15 لوگ ہلاک ہو گئے اور شاید اس لیے آپ تک یہ خبر پہنچ رہی ہے۔ لیکن سوچیں ایک گاؤں میں صرف مسجد کی چھت گرنے سے اتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں تو سندھ کے باقی حصوں میں کیا حال ہوا ہو گا؟ حکومت کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا، سیلابی پانی میں تنکوں کی طرح بہنے والے غریب بچوں کی گنتی کون کرے گا، ان کی نامعلوم قبروں کی پروا کس کو ہے؟
پی ڈی ایم اے سندھ کی ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق پورے سندھ میں ایک لاکھ سے زیادہ مکان متاثر ہوئے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے سندھ میں تقریباﹰ 231 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور ابھی بھی سیلابی پانی کی وجہ سے بہت سے علاقوں سے رابطہ منقطع ہے۔ جن علاقوں میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے ان میں دادو، ٹنڈو اللہ یار، شہید بینظیرآباد، نوشہرو فیروز، شکارپور، سانگھڑ، خیرپور اور میرپور خاص شامل ہیں۔
اگر زرعی زمینوں کی بات کی جائے، جس سے دیہاتی زندگی کی معیشت جڑی ہوئی ہے تو پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق پورے صوبے میں ابھی تک تقریبا 14 لاکھ ایکڑ اراضی متاثر ہوئی ہے۔
میں سندھ کے ایک ویلفیئر ہسپتال میں کام کرتی ہوں اور ہسپتال میں کام کرنے کا مطلب ہے ہر روز مختلف علاقوں کے لوگوں سے ملنا۔ گزشتہ چند دنوں سے ہمارے پاس مریض صرف اپنے امراض کی شکایتیں لے کر نہیں آ رہے بلکہ وہ گھر اور مال مویشی بہہ جانے جیسی افسوسناک داستانیں بھی ساتھ لا رہے ہیں۔ اُدھر بارشیں نہیں رک رہیں، اِدھر دوہری آفات کے شکار مریضوں کے آنسو نہیں تھم رہے۔
ٹرانسپلانٹ کے ایک مریض نے بتایا کہ ان کے گاؤں کے سارے کچے گھروں کی چھتیں گر چکی ہیں اور ان کے مال مویشی بارش کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ تالکے کے مرکزی سرکاری ہسپتال میں پانی بھرا ہوا ہے اور دو دن سے ایک انچ نیچے نہیں آیا۔
ڈاکٹر مسجد میں بیٹھ کر مریضوں کا تھوڑا بہت علاج کر رہے ہیں اور حکومت ابھی تک تسبی کے دانوں کی طرح گنتی میں ہی مصروف ہے۔ متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو، جو تھوڑا بہت ریلیف فراہم ہوا ہے، وہ آس پاس کے لوگوں کی طرف سے اپنی مدد آپ کے تحت مل سکا ہے۔
محکمہ موسمیات نے سندھ میں ستمبر تک بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ دیکھنے میں یہی آ رہا ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کچھ کر سکتے ہیں تو کر لیں، جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے تو وہ ''تحریک انصاف کو نکیل ڈالنے‘‘ جیسے دوسرے سنجیدہ اور اہم منصوبوں پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔