آئین میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟
5 مارچ 2021پاکستان میں خواتین کا عالمی دن اب عورت مارچ کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے عورتوں کے حقوق کی اس مارچ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس مارچ کا 2016 سے انعقاد اور اس کی مقبولیت میں شدت کے باوجود ہم نے دیکھا کہ عورتوں کے حقوق اور ان پر ظلم اور بربریت کا بازار آج بھی گرم ہے۔
اغوا، ریپ، ہراسانی، کم عمری میں شادی، جائیداد میں حق نہ دینا اور لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا آج بھی ہمارے معاشرے کے اہم المیے ہیں۔
جہاں خواتین کے حقوق کو عورت مارچ کہ ذریعے زبان ملی ہے وہیں جس بات کو سب سے زیادہ کم زیر بحث لایا جاتا ہے وہ ہے پاکستان کے آئین میں عورتوں کے کون کون سے حقوق شامل ہیں اور خواتین ان کے ذریعے کس طرح اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان حقوق کے فراہم نہ کرنے پر یا ان حقوق کی پامالی کرنے پر مجرم کن سزاؤں کا مستحق ہوسکتا ہے۔
یکساں تعلیمی حقوق
پاکستان کے آئین اور پینل کوڈ کے مطابق تعلیم حاصل کرنا بچے کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ عام طور پر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔
آیئن پاکستان کی شق 25-A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی معیاری تعلیم فراہم کی پابند ہے۔
پاکستان میں اگر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا جائے تو ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 22.5 ملین بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جن میں خاص طور پر لڑکیاں متاثر ہیں۔ 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کی لڑکیاں سکول نہیں جاتیں جبکہ 21 فیصد اسی عمر کے لڑکے بھی سکول نہیں جاتے۔
چھٹی جماعت تک 59 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔ اس کے مقابلے میں 49 فیصد لڑکے سکول نہیں جاتے۔ نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی سکول نہ جانے کی تعداد ناقابل قبول ہے۔ لیکن لڑکیاں بری طرح متاثرہو رہی ہیں۔
کم عمری میں ازدواجیت یا زبردستی کی شادی
پاکستان کے آئین کے مطابق کوئی لڑکا جس کی عمر 18 سال سے کم ہو اور لڑکی جس کی عمر 16 سال سے کم ہو رشتہ ازدواجیت میں نہیں بندھ سکتے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے مطابق بغیر رضامندی اور زبردستی کی شادی غیر قانونی ہے۔
اس کے برعکس چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں ایک بہت عام رواج ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں یہ شادیاں مختلف مقاصد کے تحت کی جاتی ہیں۔ جس میں جائیداد کی حصولی، اولاد، زمیندارانہ نظام، اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔
بہت بار یہ شادیاں چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے بھی کی جاتی ہیں۔ جب کے پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ ایسی کسی شادی کو کروانے والے افراد کو سزا دی جاے گی، جس میں 3 سے 5 سال کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ شامل ہے۔
جائیداد میں خواتین کا حق
پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اکثر جائیداد سے بے دخل کردیا جاتا ہے اور ان کو ان کا شرعی اور قانونی حق نہیں دیا جاتا۔ لیکن پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح طور پر عورتوں کو ان کا جائیداد میں حق دیتا ہے۔
پچھلے سال فروری میں پاکستان کی قومی اسمبلی اور ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی جائیداد میں خواتین کے حق کے تحفظ کا بل منظور کر لیا تھا، جسے 'انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020‘ کہا جاتا ہے۔
بل میں واضح طور پر کہا گیا کہ خواتین کو غیر قانونی اور جعل سازی کے ذریعے جائیداد کی ملکیت سے محروم کیا جاتا ہے۔ لہذا لازم ہے کہ خواتین کے جائیداد کی ملکیت کے حق کو تحفظ دیا جائے۔ قانون کے مطابق خواتین کو جائیداد میں اپنا حصہ حاصل کرنے کا حق ہوگا۔
زنا بالجبر یا ریپ
تعزیرات پاکستان دفعہ 376 اور 375 کے مطابق کسی شخص کو ریپ کا مرتکب کہا جائے گا اگر وہ کسی خاتون (یا بچی) سے اس کی مرضی کے بغیر زبردستی، قتل یا ضرر کا خوف دلا کر زنا بالجبر کرے۔
ایسے میں عورت قانونی طور پر یہ حق رکھتی ہے وہ اس مرد کے خلاف قانونی چارہ جوئی اختیار کرے۔ جس کے نتیجے میں مرد کو سزا پاکستان کے قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔
اس جرم کے مرتکب شخص کو سزائے موت یا کم سے کم 10 سال اور 25 سال قید کی سزا سنائی جائے گی جس کے ساتھ وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
لیکن اس کے باوجود پچھلے سال فروری کے مہینے میں سسٹینیبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زنا بالجبر کے کیسز میں 200 فیصد اضافہ ہوا۔ تحقیق کے مطابق صرف لاہور میں 73 ریپ کیسز اور 5 گینگ ریپ کیسز رپورٹ کیے گئے۔
ہراسانی کے خلاف قانون
ہراسانی کے معنی پینل کوڈ کہ مطابق یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی خاتون کی عزت مجروح کرنے کی کوشش کرے، جس میں جملے کسنا، ایسی آواز منہ سے نکالنا جو خاتون کو تکلیف پہچائے یا اس کو ہراساں کرے، یا جنسی تعلقات میں الفاظ سے زبردستی کرے خواہ یہ گھر میں ہوں یا دفاتر میں، ایسا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہراسانی کی سزا 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ وہ تمام خواتین جو ان حالات سے گزرتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قانونی ذرائع سے انصاف طلب کریں۔