150711 ISAF Afghanistan
18 جولائی 2011جنرل جان ایلن عراقی صوبے الانبار میں امریکی فوجوں کے اعلیٰ کمانڈر رہ چکے ہیں، جہاں انہوں نے ایک کامیاب عسکری منصوبہ ساز کے طور پر اپنی اہلیت منوا لی تھی۔ جان ایلن کے بارے میں اعلیٰ امریکی فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ بہت مشکل حالات پر قابو پا لینے والی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔
جان آر ایلن کو دھیمے لہجے والا فوجی افسر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے تین مضامین میں ماسٹرز ڈگریاں لے رکھی ہیں، جن میں سے ایک واشنگٹن کی مشہور زمانہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے حاصل کی گئی تھی۔ وہ ایک شاندار تجزیہ کار اور دانشمند عسکری منصوبہ ساز سمجھے جاتے ہیں، جو سفارتی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔
جان ایلن کی افغانستان میں امریکی اور آئی سیف دستوں کے نئے کمانڈر کے طور پر نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اور ملکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ جان ایلن جنگ میں رہنمائی کرنے والے ایک تجربہ کار فوجی افسر ہیں، جنہوں نے عراقی صوبے الانبار میں صورت حال کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
باراک اوباما کے بقول امریکی فوج کی مرکزی کمان کے نائب سربراہ کے طور پر جنرل جان ایلن کی پورے خطے میں عزت کی جاتی ہے اور وہ افغانستان کے لیے عسکری منصوبہ بندی کے عمل میں بھی بڑے بھرپور انداز میں شامل رہے ہیں۔
لیکن امریکی بحریہ کی پیدل فوج سے تعلق رکھنے والے جنرل جان ایلن کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ انہیں ہندو کش کے علاقے میں جنگ کا کوئی عملی تجربہ نہیں ہے۔ ان کی عسکری شہرت ان کی عراق میں تعیناتی کے دور کی بات ہے۔ عراقی صوبے الانبار میں سن 2007 اور 2008ء میں وہ اپنی ان کوششوں میں کامیاب رہے تھے کہ عراقی سنی عسکریت پسندوں کو دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ان جنگجوؤں سے علیحدہ کر سکیں، جو وہاں بہت فعال تھے۔ جان ایلن کی یہ حکمت عملی عراق میں مقابلتاﹰ امن کے قیام میں بڑی مددگار ثابت ہوئی تھی۔
عراق میں اپنی تعیناتی کے دوران جان ایلن نہ صرف دریائے فرات کے کنارے رمادی، فلوجہ اور بغداد کے شہروں کے دورے کرتے رہے بلکہ اس دوران وہ کئی مرتبہ عمان، دوحہ اور دبئی بھی گئے، جہاں حکمرانوں سے مذاکرات کے نتیجے میں انہوں نے عراق میں فوجی حوالے سے اپنے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی کوشش کی۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق میں یہی فوجی تجربات اب افغانستان میں جان ایلن کے کام آئیں گے۔ انہیں پس منظر میں طالبان کو شامل کرتے ہوئے افغانستان کے موجودہ مسائل کے سیاسی حل کی تلاش کا کام کرنا ہو گا اور پیش منظر میں انہیں یہ بات یقینی بنانا ہو گی کہ افغانستان میں حالات کا رخ امن کی طرف ہو اور اس ملک سے بین الاقوامی فوجی دستوں کے مکمل انخلاء تک وہاں صورت حال واضح طور پر بہتر ہو چکی ہو۔
رپورٹ: ڈینیئل شیشکے وٹس / مقبول ملک
ادارت: شامل شمس