آرمینیائی باشندوں کے قتل عام پر اوباما کا مؤقف
24 اپریل 2011امریکی صدر باراک اوباما نے 1915ء میں پیش آنے والے اس قتل عام کی مذمت تو کی، لیکن اس کے لیے ’نسل کشی’ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریزاں رہے۔ یہ بات اس تناظر میں اہم ہے کہ اوباما نے 2008ء میں صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران اس حوالے سے یہی اصطلاح استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
آرمینیا کے ریمیمبرینس ڈے کے موقع پر باراک اوباما نے ایک بیان میں کہا، ’میں 1915ء کے ان واقعات پر اپنے مؤقف کا تسلسل سے اظہار کرتا رہا ہوں اور وہ تبدیل نہیں ہوا۔‘
انہوں نے کہا کہ حقائق کو پوری طرح تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہو گا۔ تاہم واشنگٹن میں تعینات ترکی کے سفیر نے اوباما کا بیان مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ انقرہ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے دوران زیادتیاں ضرور ہوئیں، تاہم وہ سب جنگ کا حصہ تھیں اور آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔
آرمینیائی عوام پہلی عالمی جنگ کے دوران کی قتل و غارت کو بین الاقوامی سطح پر نسل کشی تسلیم کیے جانے کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں جبکہ 20 سے زائد ممالک اسے تسلیم بھی کر چکے ہیں۔ آرمینیا، سلطنت عثمانیہ کوپہلی عالمی جنگ کے دوران اپنے لاکھوں باشندوں کے قتل کا ذمہ دار تصور کرتا ہے۔ دوسری جانب یہی تنازعہ یورپی یونین میں شمولیت کے لئے انقرہ کی کوششوں کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔
امریکی کانگریس کے ایک پینل نے گزشتہ برس ایک قرار داد منظور کی تھی، جس میں پہلی عالمی جنگ کے دوران ترکی کو مسیحی آرمینیائی آبادی کی نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس پر ترکی اور امریکہ کے درمیان سفارتی محاذ آرائی شروع ہو گئی تھی ۔
افغانستان اور عراق میں استحکام لانے کی امریکی کوششوں میں انقرہ واشنگٹن کا اہم حلیف ہے۔ ساتھ ہی مغربی مارکیٹوں کو تیل و گیس کی فراہمی کے لئے اہم رُوٹ بھی فراہم کرتا ہے۔ ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بھی ہے جبکہ یورپی یونین کی رکنیت کے حصول کے لئے بھی کوشاں ہے۔
اُدھر ہفتہ کو آرمینیا کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد نے اس قتل عام کے سالانہ دن کے موقع پر نکالے گئے خصوصی جلوس میں شرکت کی۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عابد حسین