ترکی اور آرمینیا کے درمیان 'فٹ بال ڈپلومیسی'
15 اکتوبر 2009اس کا مقصد دونوں ریاستوں کے مابین گزشتہ ہفتے باہمی تعلقات کی بحالی کے لئے طے پانے والے معاہدے کی وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی کاخاتمہ تھا۔
ترکی کے صدر عبداللہ گُل نے برسا کے اسٹیڈیم میں اپنے آرمینیائی ہم منصب سیرزہ سارکیسیان کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مہمان رہنما سے ہاتھ ملایا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے ایسا رویہ امن عمل کے آغاز سے قبل غیریقینی تھا۔ اس موقع پر سفید کبوتر بھی چھوڑے گئے۔
بدھ کو کھیلاگیا فٹ بال میچ شروع ہونے سے قبل، عبداللہ گُل نے کہا، 'ہم تاریخ رقم نہیں کر رہے، تاریخ بنا رہے ہیں۔'
میچ کے بعد ایک استقبالیہ کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دو سال قبل کے حالات کو دیکھئے، پھر طے کیجئے کہ اس عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان امن عمل کہاں پہنچ چکا ہے۔
اس موقع پر آرمینیا کے صدر سارکیسیان نے کہا، 'ہم ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم ایسا قدم اٹھا رہے ہیں، جو ہماری نظر میں درست ہے۔'
یہ میچ ترکی نے دو صفر سے جیت لیا۔ اسٹیڈیم میں مقامی شائقین کی جانب سے ترکی کا پرچم لہرایا جاتا رہا، جبکہ آرمینیا کے شائقین کا ایک چھوٹا سا گروپ بھی اپنے قومی پرچم کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
دونوں ریاستوں کے مابین گزشتہ ہفتہ کو سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں باہمی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پایا ہے، جس سے عدم استحکام کا شکار توانائی کی گزرگاہ جنوبی قفقاز کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ساتھ ہی پسماندہ آرمینیا کے لئے اقتصادی مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ ترکی کے لئے یورپی یونین کی رکنیت کی راہ ہموار ہوگی۔
تاہم دونوں طرف کی پارلیمان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق ضروری ہے۔ ترکی نے اسے آئندہ ہفتے اپنے پارلیمان میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب تعلقات کی مکمل بحالی کے راہ میں ابھی تک بعض رکاوٹیں حائل ہیں۔ آرمینیائی ترکی پر پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنے ہم وطنوں کی نسل کُشی کا الزام لگاتے ہیں۔ ترکی اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ انقرہ حکام کا موقف ہے کہ اُس وقت ہزاروں آرمینیائی ہلاک ضرور ہوئے، لیکن یہ اس لڑائی کا نتیجہ تھے، جس میں متعدد ترک بھی ہلاک ہوئے۔
اس تنازعے پر اس معاہدے کی مخالفت بھی جاری ہے۔ ترکی اور آرمینیا میں قوم پرست گروپ اس پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ ترکی کے قریبی اتحادی آذربائیجان نے بھی اس معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترکی اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر تعلقات 1993ء میں منقطع ہو گئے تھے جبکہ سرحدیں بند کر دی گئی تھیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: کشور مصطفیٰ