آسیہ بی بی کی سزائے موت، معافی کے قوی امکانات
21 نومبر 2010آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے پاکستانی صوبے پنجاب کے مرکزی شہر لاہور کے قریب واقع ضلع شیخو پورہ میں مقامی ضلعی عدالت سے توہین رسالت کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والی خاتون آسیہ بی بی کی سزا میں معافی کے امکانات واضح ہو گئے ہیں۔
جیل میں مسیحی خاتون سے ملاقات کے بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا کہنا تھا کہ وہ یہ درخواست ذاتی طور پر پاکستانی صدر کو پیش کریں گے۔ آسیہ بی بی کے وکیل ایس کے چوہدری اپنی مؤکلہ کی سزا کے خلاف اپیل پہلے ہی دائر کر چکے ہیں۔ اس اپیل پر عدالت عالیہ امکانی طور پر کارروائی اگلے ہفتے کے دوران شروع کر سکتی ہے۔
پاکستان کے دستور کے تحت صدر کو یہ خاص اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی پاکستانی کو دی جانے والی سزا پر نظرثانی کرتے ہوئے اس میں کمی بیشی کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر معاف کر سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دی جانے والی سزا کو اس وقت کے صدر رفق تاڑڑ نے معاف کیا تھا۔ حالیہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک بھی صدر کو حاصل اس اختیار کا فائدہ حاصل کر چکے ہیں۔
سلمان تاثر کا شیخو پورہ جیل میں آسیہ بی بی سے ملاقات کے بعد کہنا تھا کہ وہ اگلے دنوں میں صدر سے ملاقات کرنے والے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ صدر خاتون کو دی جانے والی سزا کو معاف کر دیں گے۔ صدر کو پیش کی جانے والی معافی کی اپیل کے مندرجات کو عام نہیں کیا گیا۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کا کہنا تھا کہ وہ اس درخواست کی حمایت خالصتاً انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔
دوسری جانب مقامی شاہدین کے مطابق اس سارے معاملے میں مقامی گاؤں کے سرکردہ افراد کی بد نیتی شامل ہے۔ پاکستان میں سرگرم انسانی حقوق کے کارکنوں کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اکثریتی آبادی والے ملک میں معمولی اقلیت کسی طور ایسا نہیں کر سکتی جو مذہبی دل آزاری کا باعث ہو۔ ایسے تمام مقدمات میں ملوث افراد کو بدنیت افراد کا سامنا ہوتا ہے۔
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی لیڈر پوپ بینیڈکٹ شانزدہم پہلے ہی پاکستانی حکومت کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ اس مسیحی خاتون کی سزا پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کو ختم کرے۔ پوپ کے مطابق پاکستان کی مسیحی لوگ امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر پرتشدد واقعات کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ