آسیہ کے خلاف مقدمہ بے بنیاد ہے، وفاقی وزیر
19 نومبر 2010شہباز بھٹی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق آسیہ بی بی کے خلاف یہ مقدمہ بے بنیاد ہے اورعدالت نے اس کے مؤقف کو مناسب طریقے سے سنا بھی نہیں۔
اس سے قبل پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کی طرف سے بھی اس غیر مسلم خاتون کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی ایک عدالت نے نومبر کے آغاز میں اس مسیحی خاتون کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت پیغمبر اسلام کے خلاف متنازعہ یا ’توہین آمیز‘ کلمات ادا کرنے کے جرم میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ اسی دفعہ کے تحت چلایا گیا تھا۔
آسیہ بی بی کے شوہر نے لاہور ہائی کورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیرشہباز بھٹی نے آسیہ بی بی کی اپیل کی شفاف سماعت کے لئے خصوصی زوردیا ہے،’ ہم نے پنجاب حکومت سے درخواست کی ہے کہ لاہورہائی کورٹ میں اس خاتون کا مقدمہ غیرجانبدارطریقے سے چلایا جائے اوراسے جیل میں مناسب سکیورٹی مہیا کی جائے۔‘ ان کے بقول اسی لئے پنجاب حکومت کو کہا گیا ہے کہ اس کے خلاف الزامات کی تحقیقات نئے سرے سے کی جائیں۔
اسی ہفتے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے آسیہ بی بی کی رہائی کے لئے زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ روحانی سطح پرآسیہ بی بی کو اپنے بہت قریب محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اس غیرمسلم خاتون کو جلد از جلد آزاد کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کے اس بیان کے بعد ہی حکومت پاکستان نے اس معاملے پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
آسیہ بی بی کے وکیل ایس۔ کے چوہدری کے بقول انہوں نے اپنی مؤکلہ کی سزا کے خلاف اپیل تو دائر کردی ہے تاہم ابھی تک حکومت نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے،’ لاہور ہائی کورٹ میں اس اپیل کی سماعت ہوگی، وہاں اس کیس کی تازہ انکوائری یا از سر نو تحقیقات کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے اپنی مؤکلہ کی ضمانت کے لئے درخواست جمع کروائیں گے،’ ہم بہت زیادہ پر امید ہیں کہ عدالت آسیہ بی بی کو ضمانت پر رہا کر دے گی۔‘
دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ حکومت پاکستان توہین رسالت کے قانون میں ترامیم کی تیاریاں کر رہی ہے۔ اس کا مقصد اس قانون کے غلط استعمال کو روکنا بتایا گیا ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق برسر اقتدار سیاسی اتحاد نے اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں اور مذہبی رہنماؤں سےمشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ قانون کی وجہ سے لوگ اپنی ذاتی دشمنیاں نکالتے ہیں اس لئے اسے منسوخ کر دینا چاہئے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں اس قانون کے تحت ابھی تک کسی کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف