اربوں ڈالر کی منجمد رقوم تک رسائی دی جائے، ليبيا کے باغی
29 اگست 2011ليبيا کا کتنا پيسہ ملک سے باہر ہے، اس کے بارے ميں يقين سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ اندازہ ہے کہ يہ 80 سے 150 ارب ڈالر کے درميان ہے۔ اس پيسے کا کم از کم کچھ حصہ تلاش کر کے اسے منجمد کيا جا چکا ہے۔ اب ليبيا کی قومی عبوری کونسل ان رقوم کی واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جرمنی کی فاؤنڈيشن برائے علوم و سياست ميں سلامتی کے شعبے کے سربراہ مارکوس کائم کا کہنا ہے: ’’ اس وقت ليبيا کی تعمير نو کے ليے مالی وسائل سب سے کم اہم ہيں۔ ليبيا ايک دولتمند ملک ہے۔ اس وقت سلامتی کو بحال کرنے اور سياسی اداروں کے قيام کی سب سے زيادہ ضرورت ہے۔‘‘
ليکن برلن کی فری يونيورسٹی کے سياسی علوم اور اقتصاديات کے ليکچرار حمادی العونی کا خيال اس سے مختلف ہے: ’’قومی عبوری کونسل کو ان رقوم کی ضرورت بہت عرصے سے ہے۔ سرکاری ملازمين کی تنخواہيں ادا کرنے اور بہت سے دوسرے اخراجات کے ليے بھی پيسہ کم پڑ چکا ہے۔‘‘
العونی نے کہا کہ ليبيا کو طبی آلات، ادويات اور عملے کی بھی ضرورت ہے۔
اب تک اقوام متحدہ ليبيا کی منجمد رقوم ميں سے 1.5 ارب ڈالر تک رسائی کی اجازت دے چکا ہے۔ يہ رقم امريکہ ميں منجمد تھی۔
ليکن يورپی يونين ابھی تک قذافی حکومت کے اربوں ڈالرز تک دوبارہ رسائی پر اتنی آسانی سے تيار نہيں ہو رہی ہے۔ جرمن پارليمان کی خارجہ امور کی کميٹی اور مشرق وسطٰی کے امور کے ايک ماہر يوآخم ہيورسٹر کا کہنا ہے کہ اہم ترين بات يہ ہے کہ پہلے ليبيا ميں ايسے اداروں کا قيام ضروری ہے، جو اس پيسے کو موزوں طور پر استعمال کرنے کی صلاحيت رکھتے ہوں۔
يورپی يونين کے حلقوں ميں اس پر غور کيا جا رہا ہے کہ کيا صاف ضمير کے ساتھ باغيوں کو يہ رقوم دی جا سکتی ہيں۔ ان رقوم کے استعمال کی نگرانی کے ليے اقوام متحدہ کے ايک کميشن کے قيام کی تجويز بھی زيرغور ہے۔
رپورٹ: ٹوماس لاچان / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک