ارب پتی روسی امراء پراسرار انداز میں اچانک مرنے کیوں لگے؟
9 مئی 2022اسپین کے علاقے کاتالونیا کی پولیس کو تیل اور گیس کے ایک بااثر روسی تاجر کے بیٹے فیدور پروٹوسینیا کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ فیدور کا اس علاقے میں ایک وسیع و عریض خاندانی گھر ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ فرانس میں موجود تھا اور کئی گھنٹوں سے کاتالونیا میں اپنی والدہ سے فون پر رابطے کی کوشش میں تھا مگر اسے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا۔روس کا کنٹرول کرپٹ افسران، اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ میدویدف
یہ اطلاع پا کر جب ہسپانوی پولیس اس کے والدین کے گھر پہنچی تو حکام نے وہاں فیدور کے والدین اور ایک بہن کو مردہ پایا۔ ابتدائی طور پر پولیس نے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ فیدور کے ارب پتی والد سیرگئی پروٹوسینیا نے اپنی بیوی اور بیٹی کو چھری کے وار کر کے قتل کرنے کے بعد خود کو گھر کے باغیچے میں ایک پھندے سے لٹکا کر خود کشی کر لی تھی۔ تاہم پھر جلد ہی پولیس کے اس مفروضے کے بارے میں کئی ابہام سر اٹھانے لگے۔
اس واقعے سے ایک روز قبل تین ہزار کلومیٹر دور روسی دارالحکومت ماسکو کی پولیس کے لیے بھی ایک بھیانک انکشاف ہوا تھا۔ وہاں ایک اور روسی ارب پتی تاجر ولادسلاوآواژیو اپنی اہلیہ اور تیرہ سالہ بیٹی کے ہمرا ہ اپنے پر تعیش گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق آواژیو کی لاش کے ایک ہاتھ میں ایک پستول تھا۔ روسی حکام کو شبہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی اور بیٹی کو قتل کرنے کے بعد اپنی جان بھی لے لی تھی۔
قتل کی یہ دونوں وارداتیں چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پیش آئیں اور ان دونوں میں واضح مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ مرنے والے دونوں روسی امرا ء کا تعلق ملک میں تیل اور گیس کی تجارت کرنے والے سرکردہ ترین تاجروں کے چھوٹے سے طبقے سے تھا۔ پروٹوسینیا قدرتی گیس کی سرکاری کمپنی نوواٹیک کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے تھے جبکہ آواژیو روس کے سرکاری گیسپروم بینک کے نائب صدر کے طور پر فرائض انجام دے چکے تھے۔
یہ دونوں ہلاکتیں اسی سال تیل و گیس کے شعبے سے جڑی امیر ترین روسی شخصیات کی پراسرار اموات کے سلسلے ہی کی تازہ کڑی ہیں۔
برطانیہ: پوٹن سے رابطے رکھنے والے امراء سے کیسے نمٹا جائے؟
اس سال جنوری کے اواخر میں، روس کے یوکرین پر فوجی حملے سے تقریباﹰ ایک ماہ قبل، گیسپروم کے ایک اعلیٰ سطحی منتظم اور ساٹھ سالہ روسی شہری لیونڈ شولمین نے بھی مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ اسی طرح پچیس فروری کو گیسپروم ہی کے ایک سابق مینیجر آلیکسانڈر ٹیولیاکوف بھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اپنے گھر پر ایک پھندے پر جھولتے پائے گئے تھے۔ انہوں نے بھی بظاہر خود کشی کر لی تھی۔ اس واقعے کے ٹھیک تین دن بعد یوکرین میں پیدا ہونے والے گیس اور تیل کے ایک اور انتہائی امیر روسی تاجر میخائل واٹفورڈ کی لاش بھی جنوبی برطانیہ کے علاقے سرے میں ان کے گھر کے گیراج میں رسی سے لٹکی ہوئی ملی تھی۔
چوبیس مارچ کو طبی ساز و سامان فراہم کرنے والی دیو ہیکل روسی کمپنی 'میڈسٹوم‘ کے ارب پتی سربراہ واسیلی میلنیکوف اپنی بیوی گالینا اور دو بیٹوں کے ہمراہ روسی شہر نینژنی نووگورود میں اپنے کئی ملین ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ میں مردہ پائے گئے تھے۔
آخر میں 37 سالہ آندرے کروکوفسکی کی موت بھی ایک معمہ ثابت ہوئی۔ وہ روسی شہر سوچی کے قریب واقع 'کراسنایا پولیانا‘ نامی اسکیئنگ ریزورٹ کے ڈائریکٹر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اپنے مہمانوں کو متعدد مرتبہ اسے ریزورٹ پر مدعو کر چکے ہیں۔ ایک روسی اخبار 'کومرسانٹ‘ کے مطابق کروکوفسکی دو مئی کے روز ہائیکنگ کر رہے تھے کہ ایک چٹان سے گر کر ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
کریملن سے جڑے سینئیر لوگ؟
صرف تین ماہ کے عرصے میں روس کے انتہائی امیر کبیر سات شہریوں کی باری باری لیکن پراسرار اموات نے کئی قیاس آرائیوں کے دروازے بھی کھول دیے۔ مختلف میڈیا اداروں کے مطابق ان اموات کو خود کشی کا رنگ دینے کی دانستہ کوششیں کی گئیں۔ ذرائع ابلاغ کے ایک حصہ تو اپنی قیاس آرائیوں میں اس حد تک چلا گیا کہ اس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن یا ان کی سرکاری رہائش گاہ کریملن کو کسی نا کسی طرح ان اموات کا ذمہ دار بھی ٹھہرا دیا۔
حالیہ چند سالوں میں کریملن کے ناقدین پر متعدد قاتلانہ حملے کیے جاچکے ہیں۔ روسی حزب اختلاف کے ایک سرکردہ راہنما الیکسی ناوالنی کو اگست دو ہزار بیس میں ٹومسک ایئر پورٹ پر 'نووی چوک‘ نامی انتہائی مہلک زہر سے ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ دو سال قبل روسی خفیہ ایجنسی جی آر یو کے سابق سربراہ سیرگئی اسکرِپل کو بھی برطانیہ میں اسی انداز میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ناوالنی اور اسکرِپل دونوں ان حملوں میں اتفاقاﹰ زندہ بچ گئے تھے۔ اس سے پہلے 2006ء میں برطانیہ ہی میں پناہ گزین ایک سابق روسی سکیورٹی اہلکار آلیکسانڈر لٹوینینکو کو بھی تابکار مادے پولونیم کے ذریعے کیے گئے ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
بحران زدہ قبرص میں متنازعہ ٹیکس پر روسی امراء کی تشویش
2017ء میں امریکی اخبار 'یوایس اے ٹوڈے‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تین سالوں میں کم ازکم 38 روسی امراء ہلاک یا لاپتہ ہوگئے تھے۔
تاہم اس سال ہونے والی ہلاکتوں کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ مرنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی روس کے یوکرین پر فوجی حملے پر کھل کر تنقید نہیں کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہی ہلاک شدگان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، جسے یوکرین کی جنگ کے باعث روس اور روسی امراء پر لگائی گئی مغربی ممالک کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔
پولینڈ میں قائم تھنک ٹینک وارسا انسٹیٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق روسی پولیس اور گیسپروم کی اپنی سکیورٹی نے روس میں ہونے والی ان حالیہ اموات کی فوری تحقیقات شروع کر دیں۔ اس تھنک ٹینک کے مطابق، ''ممکنہ طور پر اب کریملن سے منسلک چند سینئیر شخصیات سرکاری کمپنیوں میں بدعنوانیوں کے نشانات مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
ان ساتوں اموات میں کسی بھی تیسرے فریق کے ملوث ہونے کے بارے میں قیاس آرائیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے تاحال کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔ اس لیے ہسپانوی پولیس ابھی تک اس مفروضے پر قائم ہے کہ سیرگئی پروٹوسینیا کیس دراصل 'پہلے قتل اور پھر خود کشی‘ کا واقعہ ہے۔ تاہم فیدور پروٹوسینیا ایسے کسی بھی مفروضے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ برطانوی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''میرے والد قاتل نہیں ہیں۔‘‘
ٹوماس لاچان (ش ر / م م)