1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

اسرائیل اور حماس کی جنگ: اقوام متحدہ میں کیا ہو رہا ہے؟

25 اکتوبر 2023

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہلی بار اس تنازعے پر کھلی بحث ہو رہی ہے، جس میں سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش اور بیشتر ممالک نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ تاہم امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک نے جنگ بندی کی مخالفت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Y0Fz
اقوام متحدہ کا اجلاس
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے غزہ میں ''تباہ کن مصائب‘‘ کے خاتمے کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا، ''مسلح تنازعے کا کوئی بھی فریق بین الاقوامی انسانی قانون سے بالاتر نہیں۔‘تصویر: Craig Ruttle/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کے روز اسرائیل اور حماس کی جنگ پر پہلی بار کھلی بحث کی، جس میں بیشتر رکن ممالک نے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا، تاکہ غزہ پٹی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بحران زدہ فلسطینیوں تک انسانی بنیادوں پر امداد پہنچائے جانے کی اجازت دی جا سکے۔

گوٹیرش کو اقوام متحدہ کے سربراہ کے عہدے سے مستعفیٰ ہو جانا چاہیے، اسرائیل

پندرہ رکنی کونسل اب تک اس مسئلے پر کوئی ایسی قرارداد پیش یا منظور کرنے میں ناکام رہی ہے، جس سے تشدد کا خاتمہ ہو سکے۔

بہت ہو گیا، قطری امیر غزہ تنازعے پر برہم

اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی ملک امریکہ نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل کے 12 دیگر رکن ممالک کی حمایت یافتہ اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا، جس میں لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل روس کی تیار کردہ قرارداد کو بھی مسترد کر دیا گیا تھا۔

امریکہ نے اسرائیل کو زمینی کارروائی میں انتظار کرنے کا مشورہ دیا ہے

اجلاس میں کس نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے غزہ میں ''تباہ کن مصائب‘‘ کے خاتمے کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا، ''مسلح تنازعے کا کوئی بھی فریق بین الاقوامی انسانی قانون سے بالاتر نہیں۔‘‘

بھارتی کمپنی کا اسرائیلی پولیس کےلیے یونیفارم بنانے سے انکار

انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کو ''انسان دوستی کے قانون کی خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ تاہم اسرائیل ان کے بیان پر کافی برہم ہے اور اس نے گوٹیرش کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن
واشنگٹن نے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جنگ میں توقف کا حامی ہےتصویر: Timothy A. Clary/AFP/Getty Images

مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے کہا، ''ہمیں اس بات پر بہت افسوس ہے کہ یہ کونسل دو بار اس جنگ کو ختم کروانے کے لیے ایک قرارداد منظور کرنے یا جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘

حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی ’بہت جلد،‘ قطری اہلکار

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے اقوام متحدہ میں 22 رکنی عرب لیگ کی جانب سے بات کرتے ہوئے اسرائیل پر ''غزہ کو زمین بوس کر دینے‘‘ کا الزام عائد کیا اور سلامتی کونسل کی جانب سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔

انہوں نے سفارت کاروں سے کہا کہ وہ بھوک کے باعث ہلاکت کے ساتھ ساتھ ''فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینے‘‘ کے خلاف بھی قرارداد منظور کریں۔ صفادی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سلامتی کونسل کے اراکین جنگ بندی کی حمایت کے ساتھ ہی دونوں جانب کے شہریوں کے قتل کی مذمت بھی کریں۔

ایمن صفادی نے کہا، ''سلامتی کونسل کو دنیا کے دو ارب مسلمانوں اور عربوں کو یہ یقین دلانے کے لیے واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی قوانین کا نفاذ بھی ممکن ہے۔‘‘

تاہم واشنگٹن نے جنگ بندی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر جنگ میں توقف تو حامی ہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ نے مکمل جنگ بندی کے بجائے رسمی اور مختصر وقت کے لیے لڑائی روکنے کی بات کہی۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سلامتی کونسل سے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ کی قیادت میں تیار کردہ ایک نئی قرارداد کی حمایت کرے۔ امریکی وزیر خارجہ نے فلسطینی شہریوں کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

بلنکن نے کہا، ''اسرائیل کو شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہییں،‘‘ اور غزہ میں امداد کی ترسیل اور لوگوں کو ''نقصان سے باہر نکالنے‘‘ کے لیے ''انسانی ہمدردی کی بنیاد پر توقف‘‘ پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک
جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نے زور دے کر کہا کہ ہولوکاسٹ کے تعلق سے جرمنی کی ذمہ داری کے پیش نظر اسرائیل کی سلامتی اور اس کا اپنے دفاع کا حق ''ناقابل گفت و شنید‘‘ ہیںتصویر: Thomas Koehler/Photothek/IMAGO

بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہونا چاہیے، جرمنی

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق پر زور دیا اور کہا کہ عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف جنگ ''انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔‘‘

بیئربوک نے زور دے کر کہا کہ ہولوکاسٹ کے تعلق سے جرمنی کی ذمہ داری کے پیش نظر اسرائیل کی سلامتی اور اس کا اپنے دفاع کا حق ''ناقابل گفت و شنید‘‘ ہیں۔

تاہم انہوں نے فلسطینیوں کی حالت زار پر بھی توجہ دی اور کہا، ''لڑائی دہشت گرد تنظیم حماس کے خلاف ہے، نہ کہ عام فلسطینی شہریوں کے خلاف۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بہت اہم ہے کہ غزہ کے شہریوں کا ہر ممکنہ حد تک خیال رکھتے ہوئے، یہ لڑائی انسانی قانون کے مطابق لڑی جائے۔‘‘

اطلاعات کے مطابق روس اس معاملے پر اپنی ایک اور جوابی قرارداد پیش کرنے والا ہے، جس پر اس ہفتے کے آخر میں ووٹنگ ہو سکتی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے کہا کہ پوری دنیا سلامتی کونسل سے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کی توقع کر رہی ہے۔

اردن اور روس ان ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی درخواست کی ہے۔ تاہم وہاں کی قراردادوں پر عمل کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی البتہ علامتی طور پر ان کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔

ص ز / ج ا، م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

حماس اسرائیل جنگ: ترکی ثالثی کردار ادا کر سکتا ہے؟