اسرائیل اور حماس کے درمیان طویل المدتی فائربندی مؤثر
27 اگست 2014فلسطینی اور مصری حکام کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ قاہرہ میں طے ہوا اور منگل چھبیس اگست کو اس پر عملدرآمد شروع ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس معاہدے میں غیرمعینہ مدت تک جارحیت روکنے، اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کے راستوں کو فوری طور پر کھولنے اور بحیرہ روم کے علاقے میں غزہ کے لیے ماہی گیری کے زون میں توسیع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلام پسند تنظیم حماس کے ایک اعلیٰ اہلکار نے غزہ کے داخلی اور خارجہ راستوں کا کنٹرول فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی قائم کردہ مخلوط حکومت کی سکیورٹی فورسز کو دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
اسرائیل اور مصر، دونوں ہی حماس کو سکیورٹی کے لیے خطرہ خیال کرتے ہیں اور وہ اس بات کی ضمانت مانگ رہے ہیں کہ راستے کھولنے سے غزہ میں ہتھیاروں کی ترسیل نہیں ہو گی۔
اس سیزفائر کا دوسرا مرحلہ ایک مہینے بعد شروع ہو گا جس کے تحت اسرائیل اور فلسطینی غزہ کی بندرگاہ کی تعمیر پر بات چیت کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ مغربی کنارے میں قید حماس کے قیدیوں کی رہائی پر بھی بات ہو گی۔ حکام کے مطابق یہ قیدی ممکنہ طور پر اسرائیل کے دو فوجیوں کی جسمانی باقیات کے بدلے رہا کیے جا سکتے ہیں۔ خیال ہے کہ ان فوجیوں کی جسمانی باقیات حماس کے قبضے میں ہیں۔
منگل کی شام سیزفائر کے نفاذ پر غزہ کی گلیاں پر ہجوم ہو گئیں اور وہاں جشن کا سا سماں دکھائی دینے لگا۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق اس موقع پر ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ایک فلسطینی شہری ہلاک اور انیس زخمی ہو گئے۔
حماس کے ترجمان سمیع ابو زہری کا کہنا تھا: ’’آج ہم مزاحمت کی فتح کا اعلان کرتے ہیں، آج ہم غزہ کی فتح کا اعلان کرتے ہیں۔‘‘
اسرائیل نے کہا ہے کہ سیزفائر کا احترام کیا گیا تو غزہ میں شہری ضروریات کے ساتھ ساتھ امدادی اور تعمیراتی سامان کی رسائی ممکن بنائی جائے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ترجمان مارک ریگیف نے کہا، ’’ہمیں غزہ کے عام شہریوں تک مدد پہنچنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
اُدھر امریکا اور اقوام متحدہ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کریں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے، ’’ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ ایک موقع ہے، کوئی یقینی بات نہیں۔ ہم اس مرحلے تک پہلے بھی پہنچ چکے ہیں اور اس بات سے آگاہ ہیں کہ آگے چیلنجز ہیں۔‘‘
فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق سات ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے دوران دو ہزار ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے جن میں بیشتر عام شہری تھے۔ اس دوران اسرائیل کے چونسٹھ فوجی اور چھ شہری مارے گئے۔