اسرائیل حماس تنازعہ اور عرب دنیا، کون کس کے ساتھ ہے؟
31 اگست 2024آئیے غزہ جنگ کے حوالے سے مختلف عرب ممالک کے موقف پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
اردن، متوازن رہنے کی کوشش میں
اردن ایک دستوری بادشاہت ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعے پر اردن متوازن حکمت عملی کی کوشش میں ہے۔ اردن میں بہ شمول ملکہ ہر پانچواں شخص فلسطینی پس منظر کا حامل ہے۔ اردن میں زیادہ تر افراد فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد وطن کی حامی ہیں۔ ملک کے حکمران بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہیں۔
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی عام افراد کو علم بھی نہیں کہ اردن اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا حامل بھی ہے۔ 1994ء میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ پس پردہ ایک امن معاہدے پر دسختط کیے تھے۔ مسجدالاقصیٰ کی سلامتی سے لے کر دیگر سکیورٹی معاملات میں یہ دنوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
مصر، ذاتی مفاد اور سفارت کاری
اسرائیل کا ہم سایہ ملک مصر، اس وقت عبدالفتاح السیسی کی آمرانہ طرز کی حکومت کے تابع ہے، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے متعلق انتہائی محتاظ رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ سن 1979 میں امن معاہدے کے بعد سے مصر قومی مفادات خصوصاﹰ سینائی کے علاقے میں امن اور 'فلسطینی کاز‘ کے درمیان ایک توازن کی پالیسی پر گامزن ہے۔
تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے رواں برس مئی میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا، ''مصر کی کوششوں کا بنیادی مقصد ایک طرف تو غزہ جنگ کے متاثرین کی کوئی براہ راست ذمہ داری لینے سے اجتناب ہے لیکن ساتھ ہی دو ریاستی تصور کے تحت بات چیت کے ذریعے سفارتی حل تلاش کرنا ہے۔‘‘
غزہ پٹی کی مصری علاقے سینائی سے متصل سرحدی کراسنگ رفح مصری انتظام میں چلتی رہے ہے، تاہم اسرائیلی مطالبہ کہ اب وہ بھی اس کراسنگ کو کنٹرول کرے گا، مصر کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ مصری مؤقف ہے کہ اس طرح غزہ جنگ کا اثرا مصری سرزمین پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مصر ماضی میں حماس کا مخالف رہا ہے تاہم حالیہ کچھ عرصے میں اس سخت موقف میں قدرے نرمی پیدا ہوئی ہے۔ غزہ میں سیز فائر مذاکرات کے حوالے سے مصری کردار نہایت اہم رہا ہے۔
سن 2023 سے مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی قدرے بہتر ہوئے ہیں مگر ابھی ان میں گرم جوشی نہیں۔
لبنان، فیصلہ حزب اللہ کا
لبنان ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ يہ ملک اس وقت سیاسی اور اقتصادی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ سن 2020 سے یہاں کوئی منتخب حکومت موجود نہیں ہے اور ملک کو شدید مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ اس سے قبل لبنان میں ہمیشہ مختلف مذاہب اور نسلی گروہوں کے نمائندوں پر مبنی حکومت ہوا کرتی تھی۔ حزب اللہ کا سیاسی بازو شیعہ مسلمانوں کا نمائدہ ہے اور لبنان کی حکمرانی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مگر اسے اپنے مفادات کے علاوہ لبنانی مسیحیوں، سنی مسلمانوں اور دروز آبادی کے ساتھ تعلقات بھی سامنے رکھنا ہوتے ہیں۔
حزب اللہ کا عسکری بازو ایک مختلف کہانی ہے۔ اسے امریکہ اور یورپی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ یہ گروہ لبنان کی قومی فوج سے بھی زیادہ مسلح اور منظم ہے۔
بہت سے لبنانی سیاست دان اور مقامی افراد یہ نہیں چاہتے کہ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ کوئی خواہ مخواہ کی بڑی لڑائی جا چھیڑے۔ تاہم لبنانی سیاست دانوں کو یہ علم بھی ہے کہ ان کا حزب اللہ پر کنٹرول بہت محدود ہے۔
ابھی اتوار ہی کو حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغے گئے، جب کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں درجنوں فضائی حملے کیے۔
شام، جیسا ایران کہے
سن 1948ء ميں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے شام اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت شام میں بشارالاسد کی آمرانہ حکومت قائم ہے، جب کہ انہیں گزشتہ تیرہ برس سے جاری خانہ جنگی میں بھرپور ایرانی تعاون حاصل رہا ہے۔ اسی تناظر میں شامی سرزمین پر ایران نواز ملیشیاز کی بڑی تعداد موجود ہیں، جن میں حزب اللہ کے علاوہ عراق سے تعلق رکھنے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔
اسی تناظر میں سن 2017 سے شام پر اسرائیلی حملوں میں خاصی شدت آئی ہے جب کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد یہ تناؤ مزید کشیدگی میں بدل چکا ہے۔
عراق، بیرونی مداخلت کا مخالف
عراق نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق گو کہ اس وقت عراق ميں شیعہ مسلم سیاست دان حاوی ہيں اور گزشتہ ایک دہائی میں عراق کی ایران کے ساتھ قربت بڑھی ہے، تاہم فلسطینی معاملے پر یہ ملک فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ عراق میں متعدد ایسے جنگجو گروپ موجود ہیں، جو خود کو 'مزاحمت کا پیکر‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ گروپ عراق میں متعدد امریکی فوجی اڈوں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں، تاہم یہ گروہ اب تک عراق سے اسرائیل پر کسی حملے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ عراقی حکومت یا تو ان گروپوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہے اور یا ان کے ساتھ بہت کم رابطوں کی حامل ہوتی ہے۔
یمن، ساری بات حوثی باغیوں کی
خانہ جنگی کی وجہ سے یمن جنوبی شہر عدن میں ڈیرے ڈالے بین الاقوامی طور پر مسلمہ حکومت اور شمالی شہر صنعا پر قابض حوثی باغیوں کے مابین داخلی تقیم کا شکار مگر اس تنازعے کے یہ دونوں فریقین ہی اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ماضی میں سعودی قیادت میں عرب اتحاد حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائیوں میں مصروف رہا ہے، تاہم دو ہزار بائیس سے فائربندی معاہدے پر دستخط کے بعد سے وہاں قدرے امن ہے۔ حوثی باغی بھی خود کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف 'مزاحمت کا مظہر‘ سمجھتے ہیں۔ حوثی باغی اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کی وجہ قرار دیتے ہیں اور یہ حماس کے حامی ہیں۔
سعودی عرب، امارات اور قطر، امیر اور عملیت پسند
خلیجی ریاستیں مطلق العنان حکمرانوں کی حامل ہیں اور حالیہ تنازعے میں ان کا مؤقف خاصا عملیت پسندہے۔ یہ ممالک ایران کو دشمن سمجھتے ہیں اور ماضی قریب میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر تھے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین دونوں نے ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھسفارتی تعلقات کا آغاز کیا تھا، جب کہ سعودی عرب بھی ایسا ہی کرنے والا تھا۔ تاہم سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد حالات تبدیل ہو گئے۔ دوسری جانب قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی میں ثالث کے بہ طور کام کر رہا ہے۔
کرسٹین شائر (ع ت/ع س / ع ب)