’عارضی جنگ بندی، مذاکرات کے لیے حماس کا وفد قاہرہ میں‘
4 مئی 2024غزہ پٹی کو کنٹرول کرنے والے عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس کا وفد آج ہفتہ چار اپریل کو جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے لیے واپس قاہرہ پہنچے گا۔ اس بات چیت میں اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے سیز فائر اور اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے موضوع پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعے کو دیر گئے ایک بیان میں کہا، ''ہم یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ آیا وہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبے کا جواب ہاں میں دے سکتے ہیں۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ''اس لمحے کی حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے لوگوں اور جنگ بندی کے درمیان حائل صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے حماس۔‘‘
بلنکن نے حماس، جسے امریکہ اور یورپی یونین ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں اور جسے اسرائیل ختم کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے، کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں درپیش مشکلات کی طرف اشارہ کیا۔ بلنکن نے کہا، ''حماس کے رہنما، جن کے ساتھ ہم بالواسطہ طور پر قطریوں اور مصریوں کے ذریعے منسلک ہیں، یقیناً غزہ سے باہر رہ رہے ہیں۔‘‘ بلنکننے اس اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''حتمی فیصلہ ساز وہ لوگ ہیں جو دراصل خود غزہ میں ہیں جن کے ساتھ ہم میں سے کسی کا براہ راست رابطہ نہیں ہے۔‘‘
بلنکن نے یہ بیانات اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے کئی روز بعد ایریزونا میں میک کین انسٹی ٹیوٹ کے سیڈونا فورم سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ کے اپنے تازہ ترین دورے پر بلنکن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
بلنکن کے ساتھ اپنی بات چیت سے پہلے، نیتن یاہو نے جنگ بندی کے مذاکرات کے نتائج سے قطع نظر جنوبی غزہ کے شہر رفح پر حملہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بارہا اسرائیل کو رفح پر حملے کے خلاف خبردار کیا ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق 1.2 ملین فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ اسرائیل، جو فوجی اور سفارتی مدد کے لیے امریکہ پر اعتماد کرتا ہے، نے ابھی تک ''ان فلسطینی شہریوں کو جو مزید مشکلات اور نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں، حقیقی طور پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ ‘‘
امریکی وزیر خارجہ نے کا کہنا تھا، ''اس طرح کے منصوبے کی عدم موجودگی میں، ہم رفح میں کسی بڑے فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے جو نقصان پہنچے گا وہ قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
ک م/ا ب ا - ع ت (اے ایف پی)