1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کے قیام کی وجہ، ’بیلفور اعلامیے‘ کو سو برس ہو گئے

2 نومبر 2017

ٹھیک سو برس قبل برطانیہ کی طرف سے67 الفاظ پر مشتمل ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جو بعد ازاں اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا تھا۔ تاہم فلسطینی علاقوں ’بیلفور اعلامیے‘ کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2murC
Westjordanland Ramallah 100. Jahrestag Balfour-Deklaration | Proteste, Demonstration
برطانیہ اور اسرائیل میں اس موقع کی مناسبت سے کئی تنظیموں نے مظاہروں کا انتظام بھی کیاتصویر: Getty Images/AFP/A. Momani

ٹھیک سو برس قبل دو نومبر کے دن اس دور کی برطانوی حکومت کی طرف سے ’بیلفور اعلامیے‘ کے نام سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس میں مشرق وسطیٰ میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔ ایک خط پر مبنی اس بیان کے لکھنے والوں میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بیلفور بھی شامل تھے۔ اسی لیے اس اعلامیے کو انہی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ تاہم تب یہ معلوم نہ تھا کہ مشرق وسطیٰ میں شروع ہونے والا ایک نیا تنازعہ حل کرنا ’ناممکن‘ ہو جائے گا۔

اسرائیلی۔فلسطینی تنازعہ: تاریخی پس منظر

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کے خلاف ہیں، ماکروں

اسرائیلی فیصلہ ’میڈیا کی آزادی پر شرمناک حملہ‘ ہے، ایمنسٹی

اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں کی جھڑپیں

دو نومبر بروز جمعرات اس بیان کو جاری ہوئے ایک سو برس مکمل ہو گئے۔ اس مناسبت سے برطانیہ اور اسرائیل میں خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ اور اسرائیل میں اس موقع کی مناسبت سے کئی تنظیموں نے مظاہروں کا انتظام بھی کیا۔

اس مظاہروں کے شرکاء کا مطالبہ ہو گا کہ لندن حکومت اعتراف کرے کہ اس کی طرف سے جاری کردہ اس اعلامیے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدل کر رہ گیا اور فلسطینی عوام کی مشکلات میں بھی شدید اضافہ ہوا۔

تاہم اسرائیلی حکومت سابق برطانوی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ آرتھر بیلفور کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ نہ صرف متعدد اسرائیلی سڑکوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے بلکہ تل ابیب کے ایک اہم اسکول کا نام بھی بیلفور کے نام پر رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں ماضی کے اس برطانوی سیاستدان کو بہت متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔

کئی ناقدین بیلفور ڈیکلیریشن ہی کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جاری عشروں پرانے تنازعے کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے سن 1948 میں اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ سن 1922 سے لے کر دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی، یعنی سن انیس سو سینتالیس کے اواخر تک فلسطین کا انتظام برطانیہ ہی کے پاس تھا۔ 1922ء سے قبل یہ علاقہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا۔

دنیا کے نقشے پر اسرائیلی ریاست کے ابھرنے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے حالات میں کئی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جبکہ یہ علاقہ جنگوں کی لپیٹ میں بھی رہا ہے۔ عالمی برادری کے رکن بہت سے ممالک کی طرح برطانیہ بھی اسرائیل کو اپنا انتہائی اہم حلیف ملک قرار دیتا ہے۔ اس خطے میں قیام امن کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے اور عالمی برادری کی کوشش ہے کہ اس تناظر میں اسرائیلی حکومت بھی اپنا کردار بخوبی نبھائے۔

برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے ’بیلفور ڈیکلیریشن‘ کی تعریف و ستائش کرتے ہوئے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ اسی اعلامیے کی وجہ سے ’ایک عظیم ملک‘ کا قیام ممکن ہو سکا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس اعلامیے کی اصل روح پر عمل نہیں ہو سکا۔ جانسن نے کہا کہ بیلفور اعلامیے کے تحت مشرق وسطیٰ کی تمام تر قوموں کو تحفظ دینے کی بات کی گئی تھی، اور یہ کام ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔

اسی تناظر میں فلسطینی صدر محمود عباس نے برطانوی اخبار ’گارڈین‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں لندن حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اعتراف کرے کہ بیلفور ڈیکلیریشن ایک غلطی تھا۔ برطانوی حکومت ماضی میں ایسے فلسطینی مطالبات مسترد کرتی رہی ہے کہ اس اعلامیے کو جاری کرنے اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم نہ کرنے پر برطانیہ سرکاری سطح پر معافی مانگے۔