اسلامک اسٹیٹ کی پیشقدمی روکنا ضروری ہے: راسموسن
5 ستمبر 2014مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن کا کہنا ہے کہ عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے پیش قدمی کو روکے تا کہ یہ انتہا پسند تنظیم مزید علاقوں پر قبضہ نہ کر پائے۔ نیٹو سربراہ اجلاس میں اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے امکانی خطرات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ راسموسن نے اِن خیالات کا اظہار نیوٹاؤن کے مشہور گالف کورس میں جاری دو روزہ نیٹو سمٹ کے دوران کیا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ سن 2011 تک عراقی فوج کے لیے تربیتی مشن جاری رکھا گیا اور اب ایک مرتبہ پھر بغداد حکومت نے تربیتی مشن کو شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ راسموسن کے مطابق نیٹو کی رکن ریاستیں اس درخواست پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہیں۔ اِس سے قبل تربیتی مشن کو نیٹو نے منسوخ کر دیا تھا کیونکہ بغداد حکومت کے ساتھ ڈیل طے نہیں ہو سکی تھی۔
انتہاپسند عسکری تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے عراق اور شام کے بعض علاقوں پر قبضہ جمانے کے بعد اپنے مخالفین کی ہلاکتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اِس کے پرچم جلانے کے خلاف شدت پسند تنظیم کے مسلح جہادیوں نے تل علی کے قصبے پر دھاوہ بول کر وہاں سے پچاس افراد کو مغوی بنا لیا ہے۔ تل علی کا قصبہ بغداد سے 240 کلومیٹر کی دوری پر شمال میں واقع ہے۔ اِس کا تعین نہیں ہو سکا کہ مغوی افراد کو عسکریت پسند کہاں لے کر گئے ہیں۔ اِسی تنظیم نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران دو امریکی صحافیوں کے سرقلم کر کے اُن کی ویڈیوز ریلیز کی تھی۔ اِس کے علاوہ اِس تنظیم پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بھی سنگین الزامات عائد ہیں۔ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ اِس حوالے سے چھان بین شروع کرنے والا ہے۔
برطانیہ کی میزبانی میں ویلز کے سیاحتی قصبے نیوٹاؤن میں جمعرات سے شروع ہونے والی نیٹو کانفرنس کے پہلے دن یوکرائن کا بحران پوری طرح ایجنڈے پر چھایا رہا۔ اِس کے علاوہ افغانستان سے رواں برس کے اختتام تک نیٹو کی رکن ریاستوں کے فوجیوں کے انخلا پر بھی بات کی گئی۔ ان اہم موضوعات کی موجودگی میں اسلامک اسٹیٹ کی بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ کارروائیوں کا بھی رہنماؤں کو احساس تھا۔ دو امریکی صحافیوں کے سر قلم کرنے کے بعد اب اسلامک اسٹیٹ نے ایک مغوی برطانوی شہری کو قتل کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ کانفرنس کے آغاز پر امریکی صدر اوباما اور برطانوی وزیر اعظم کیمرون نے واضح طور پر کہا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کی بربریت سے اقوام کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
یہ امر اہم ہے کہ عراق اور شام میں موجود مغربی ممالک کے عسکریت پسند شہری اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مل کر لڑائی کرنے کے بعد اپنے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں۔ ان فائٹرز کی واپسی سے مغربی ملکوں میں سکیورٹی خطرات بڑھ گئے ہیں۔ عراق و شام، یمن و صومالیہ اور نائجیریا میں مسلمان انتہاپسند جہادیوں کو ڈرون حملوں کے علاوہ مقامی حکومتوں کی سخت کارروائیوں کا بھی سامنا ہے۔ عراق کے شمالی حصے میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف محدود امریکی فضائی کارروائی جاری ہے۔ اس مناسبت سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی ایسی فضائی حملے شروع کر سکتے ہیں۔ عراق میں خود مختار کرد فورسز کے لیے مغربی اقوام کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلانات سامنے آ چکے ہیں۔ جرمنی کرد فائٹرز کو بانوے ملین ڈالر کے ہتھیار دے گا۔