’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے کوئی مقام مقدس نہیں
14 نومبر 2016ہفتے کے روز پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں ایک خود کش بمبار نے صوفی بزرگ شاہ بلال نورانی کے مزار پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس دہشت گردانہ حملے میں خواتین اور بچوں سمیت پچاس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب ملک بھر سے آئے ہوئے قریب چھ سو زائرین صوفی موسیقی کی ایک مذہبی رسم ’دھمال‘ ادا کرنے میں مصروف تھے۔
عسکریت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہاں یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ ایسے زائرین کی ہلاکتیں، جن کا تعلق بے حد پسماندہ پس منظر سے تھا، دہشت گردوں کے عزائم کی تکمیل میں کس طرح نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔
اِسی طرح پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے اُن دعووں پر بھی سوال اُٹھتے ہیں جن کے مطابق مختلف آپریشنز کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی شعبو اُردو کی کشور مصطفٰی اِس حوالے سے کچھ یوں تبصرہ کرتی ہیں۔
مزاروں پر اِس نوعیت کے حملے پاکستان میں کئی سالوں سے معمول بن چکے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی حکام سےاُن مقامات پر زیادہ چوکس رہنے کی توقع کی جاتی ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مذہبی رسومات انجام دینے آتے ہیں۔
دہشت گردی کی لعنت پاکستان کے لیے ناسور بنی ہوئی ہے اور جب تک فیصلہ کن اور پائیدار کوششیں نہیں کی جائیں گی، اُس وقت تک ملک میں عبادت گاہوں، اسکولوں اور ثقافتی مراکز کو محفوظ بنانے کا تصور بھی نا ممکن ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عسکریت پسند مذہبی جنون رکھنے والے وہ افراد ہیں جو کسی طرح کے انسانی نظریے کے لیے کوئی رواداری نہیں رکھتے۔ جہادی گروپ داعش یا اسلامک اسٹیٹ نہ صرف ہندو اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اور شیعہ مسلک کے افراد کے قتل میں ملوث رہا ہے بلکہ صوفیائے کرام کی پُر امن تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والے سنی مسلک کے افراد بھی اس کا ہدف بنتے رہے ہیں۔ سنی اور شیعہ دونوں ہی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے زائرین صوفی بزرگ شاہ نورانی کے مزار کی زیارت کرنے آتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا انحصار یقینی طور پر ملکی سکیورٹی فورسز کی کاوشوں اور منشاء پر ہے۔ تاہم سب سے اہم قدم یہاں مذہبی جُنونیت اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ پاکستان صوفیائے کرام کی تعلیمات کے تحت جنوب ایشیائی اسلام کی اِس کے تمام رنگوں اور رسومات سمیت نمائندگی کرتا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان میں سابق فوجی آمر ضیاالحق نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کی راہ کو فروغ دینے کے لیے اسلام میں بنیاد پرستی کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ پاکستان میں آمریت کا وہ دور ختم ہوئے مدت ہوئی تاہم اِس ورثے کے سیاہ سائے اب بھی ملک پر چھائے ہوئے ہیں ہیں اورخونریزی کا ایک ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان شدت پسندوں نے وہابی اسلام کی سعودی ماہیت کی تشہیر کی اور ایسے افراد کو ہدف بنایا جو اِن بنیاد پرستوں کی نظر میں لا دین ہیں۔ پاکستان میں بزرگ شاہ بلال نورانی کے مزار سمیت صوفیائے کرام کے مزار نہ صرف غریب افراد کو خوراک اور سر چجپانے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں بلکہ یہ مقامات صوفیانہ موسیقی اور رقص جیسی روحانی اور ثقافتی سرگرمیوں کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔
اِن مقامات پر حملے ایک طرف تو غریب عوام کو بنیادی ضروریات سے محرومی میں اضافہ کرتے ہیں تو دوسری جانب اُنہیں اپنے مذہبی عقائد اور ثقافتی رسومات کی ادائیگی سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں موجود شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور نیٹ ورک کو جڑ سے ختم کرے اور اِنہیں اندرون اور بیرون ِ ملک اِن کے سرپرستوں سے علیحدہٰ کر دے۔