’اسلام آباد اور تہران میں اثر و رسوخ کی رسہ کشی‘
23 دسمبر 2010دہشت گرد تنظیم جُند اللہ کی جانب سے 15 دسمبر کے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد تہران حکومت سخت مؤقف اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس حملے میں 39 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
رواں ہفتے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اپنے پاکستانی ہم منصب آصف علی زردری کو ٹیلی فون کر کے براہ راست طور پر ’شناخت شدہ‘ دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ایرانی پارلیمان میں خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی کمیٹی کے ذرائع کے مطابق اگر پاکستان اس ضمن میں اقدامات نہیں کرتا تو ایران خود ایسا کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
سیاسی و دفاعی امورکے ماہرین قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خلاف مناسب کارروائی نہ کرسکنے کی وجہ سے بین الاقوامی برادری میں پاکستان حکومت کی کمزور ہوتی ہوئی ساکھ سے ایران فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ انٹیلی جنس فرم STRATFOR کے مطابق ایران خطے کا اہم ملک ہے اور افغانستان میں پاکستان کے حلیف کی حیثیت رکھتا ہے، اسی لئے اب وہ اپنے مشرق کی جانب دباؤ بڑھا کر خطے میں اپنی حیثیت ظاہر کر رہا ہے۔
روایتی طور پر یہ خیال عام ہے کہ پاکستان، افغانستان میں پشتونوں اور سُنی عقیدے کے مسلمانوں کی پشت پناہی کرتا رہا ہے جبکہ اس کے بر خلاف ایران غیر پشتون قوتوں اور بعض شیعہ گروپوں کی حمایت کرتا ہے۔
اس انٹیلی جنس فرم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نہیں چاہتا کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ پرتناؤ تعلقات کے بعد اب ایران کو بھی ناخوش کیا جائے۔ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک واضح کرچکے ہیں کہ ایران کو مطلوب دہشت گردوں کو تہران کے حوالے کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
خبر رساں ادرے روئٹرز سے بات چیت میں ملک نے کہا کہ ایرانی حکومت سے مطلوب افراد سے متعلق خصوصی معلومات طلب کی گئی ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ جُند اللہ کے لیڈر عبدالمالک ریگی کی گرفتاری میں انہوں نے ایران کو تعاون فراہم کیا تھا۔
تجزیہ نگار احمد رشید کے بقول پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی ہی جُند اللہ کی واحد معاون قوت نہیں رہی بلکہ اس تنظیم نے طالبان اور امریکہ سے بھی ایران مخالف سرگرمیوں کے لئے تعاون حاصل کیا ہے۔ رشید خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان پر اس کے پڑوسیوں اور اتحادیوں کا عدم اعتماد خطرے کی بات ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق