اس سال پانچ لاکھ مہاجرین کے اہل خانہ جرمنی آ سکتے ہیں، رپورٹ
8 جون 2016نیوز ایجنسی اے پی اور ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان ٹوبیاس پلاٹے نے آج آٹھ جون بروز بدھ مقامی ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ بی اے ایم ایف نے پچھلے سال نومبر کے مہینے ہی میں اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ شامی مہاجرین کے اہل خانہ اور ان کے عزیز و اقارب کی آمد کے اس سال کے آخر تک ملک میں شامی پناہ گزینوں کی تعداد دوگنا ہو جائے گی۔
ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن
علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟
پلاٹے نے یہ بھی کہا کہ جس وقت بی اے ایم ایف نے اپنی ایک داخلی دستاویز میں یہ مہاجرین کے عزیز و اقارب کی ممکنہ آمد کا تخمینہ لگایا تھا اس وقت تک جرمنی میں مہاجرین کے اہل خانہ کو بلانے کے نئے قوانین وجود نہیں رکھتے تھے۔ نئے قوانین میں مہاجرین کے لیے عزیز و اقارب کو جرمنی بلانے کا عمل مزید سخت کر دیا گیا ہے۔
جرمن اخبار ’زُود ڈوئچے سائٹنگ‘ نے آج اپنی ایک رپورٹ میں وفاقی دفتر برائے مہاجرین و ترک وطن کی ایک دستاویز کے حوالے سے لکھا تھا کہ جرمنی میں مقیم شامی مہاجرین ’فیملی ری یونیفیکیشن‘ قانون کے تحت اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے جرمنی بلا سکتے ہیں۔ بی اے ایم ایف کی داخلی رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آخر تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کے اہلِ خانہ کی تعداد پانچ لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
وزات داخلہ کے ترجمان ان خبروں کی تردید کی کہ یہ تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں مقیم ہر مہاجر اوسطاﹰ ایک فرد کو جرمنی بلانے کی درخواست دے رہا ہے۔
جرمن وفاقی ریاست باویریا کے وزیرِ اعلیٰ ہورسٹ زیہوفر نے آج اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں جو تعداد بتائی جا رہی ہے وہ کم از کم ہے اور حقیقی تعداد اس سے کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہرمان نے بھی ان اعداد و شمار کو ’پریشان کُن‘ قرار دیا تھا۔
جرمنی میں چار لاکھ 28 ہزار شامی مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں جن میں سے 72 ہزار مہاجرین رواں برس کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران جرمنی آئے تھے۔ جرمنی نے رواں برس مارچ کے مہینے میں ’فیملی ری یونیفیکیشن‘ کے ملکی قوانین میں تبدیلی کر دی تھی۔ نئے قوانین کے مطابق ملک میں آنے والے مہاجرین پناہ ملنے کے دو سال بعد تک اپنے اہل خانہ کو جرمنی نہیں بلا سکیں گے۔۔
جرمنی کی گرین پارٹی کی پارلیمانی سربراہ نے اہل خانہ کو دو سال تک نہ بلا سکنے کی پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ شام سے تعلق رکھنے والی مہاجر عورتوں اور بچوں کو جرمنی آنے کا قانونی راستہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ وہ خطرناک سمندری راستے اختیار کر کے اپنی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔