افغانستان: آخری انتباہ کے بعد بھی سویلین ہلاکتیں
8 جولائی 2011افغانستان میں رواں موسم گرما کے دوران اس سے قبل بھی متعدد بار عام شہری طالبان اور نیٹو کے درمیان جنگ کی زد میں آ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق محض مئی کے مہینے میں اس طرز کے واقعات نے 368 انسانوں کی جانیں لیں۔ اسی طرح گزشتہ سال مجموعی طور پر 2777 عام افغان شہری اپنے ملک میں بد امنی کے سبب مارے گئے۔
سویلین ہلاکتوں کا معاملہ کابل حکومت اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مابین اختلاف کی ایک بڑی وجہ بن کر ابھر رہا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی گزشتہ ماہ ہی اس ضمن میں نیٹو کو ’آخری انتباہ‘ دے چکے ہیں کہ وہ ایسی ’’غیر ضروری اور من چاہی‘‘ کارروائیوں سے گریز کرے، جو عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔ افغان صدر نے ہلمند صوبے میں نیٹو کے حملے کے سبب 14 افراد کی ہلاکت کے بعد یہ انتباہ جاری کیا تھا۔
حالیہ واقعے سے متعلق خوست میں پولیس کے سربراہ محمد زازئی نے بتایا، ’’بد قسمتی سے آٹھ خواتین، چار بچے اور ایک مرد نیٹو کے فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔‘‘ مقامی افراد کے مطابق نیٹو نے ایک ایسے شخص کے گھر پر بمباری کی، جو ایک پہاڑی علاقے میں شہد کی مکھیاں اور مویشی پالنے کا کام کرتا تھا۔ نہتے شہریوں کی ہلاکت کے اس واقعے کے خلاف گزشتہ روز سینکڑوں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے کابل جانے والی شاہراہ بند رکھی اور فضائی حملے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
نیٹو کا البتہ موقف ہے کہ یہ حملہ ان شرپسندوں کے گھر پر کیا گیا، جو اس حملے میں مارے گئے۔ نیٹو کے بقول یہ حملہ اس وقت کیا گیا، جب سکیورٹی دستے عسکریت پسندوں کے حملے کی زد میں آ گئے تھے۔ محمد زازئی نے بھی اس واقعے میں حقانی گروپ کے ایک کمانڈر اور اس کے تین جنگجو ساتھیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔ طالبان کا البتہ کہنا ہے کہ ان کا کوئی ساتھی اس حملے میں نہیں مارا گیا۔
خوست میں سویلین ہلاکتوں کے اس واقعے سے محض ایک روز قبل جنوب مشرقی صوبے غزنی میں بھی نیٹو کی ایک کارروائی میں دو شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں۔ یاد رہے کہ رواں سال ہی نیٹو کے ہیلی کاپٹروں نے شمال مشرقی افغانستان میں نو ایسے بچوں کو بمباری کر کے ہلاک کر دیا تھا، جو جنگل میں لکڑیاں چُن رہے تھے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: مقبول ملک